بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدینہ منورہ اور جنۃ البقیع میں اور مکہ مکرمہ اور جنۃ المعلیٰ میں دفن ہونے کی تمنا کرنا


سوال

مدینہ منورہ اور جنۃالبقیع میں دفن ہونے کی، اور  مکہ مکرمہ اور جنۃالمعلیٰ میں دفن ہونے کی تمنا کرنا کیسا ہے؟  قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل ومفصل جواب مرحمت فرمائیں!

جواب

                         جس طرح دنیا میں نیک اور صالح  پڑوسی کی مصاحبت سے راحت اور آرام ملتا ہے، اسی طرح برزخ اور قبر میں بھی نیک اور صلحاء کے پڑوس سے فوائد حاصل ہوتے ہیں، جس طرح دنیا میں رہنے کے لیے نیک مصاحبوں اور پڑوسیوں کی خواہش کی جاتی ہے اسی طرح مرنے کے بعد  نیک صلحاء کے پڑوس میں مدفون ہونے کی خواہش بھی مندوب ہے، بہت سی روایات وآثار سے اس کی تائید ہوتی ہے، ذیل میں ان سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے:

1۔۔  حلیۃ الاولیاء اور کنز العمال میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ کی روایت منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اپنے مردوں کو نیک لوگوں کے درمیان دفن کرو، اس لیے کہ میت کو بُرے پڑوسی سے تکلیف پہنچتی ہے جیساکہ زندہ شخص کو پہنچتی ہے“۔

2۔۔مصنف ابن ابی شیبہ میں  حضرت عبد اللہ بن مسعود کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے یہ وصیت کی :” مجھے عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے پاس  دفن کرنا“۔

3۔۔ اسی طرح حضرت خیثمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وصیت کی تھی :” مجھے فقراء توامہ کے قبرستان میں دفن کرنا“۔

4۔۔  صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قصہ مذکور ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرہ مبارکہ میں دفن ہونے کی تمنا کی، اور انتہائی لجاجت اور انکساری سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس کی اجازت مانگی، تاکہ آپ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قرب وجوار میں مدفون ہوسکیں۔

5۔۔ صحیح بخاری میں فضائلِ مدینہ کے باب  میں  حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا اور تمنا منقول ہے کہ وہ فرماتے تھے :

” اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ واجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رسولِكَ“.

اے اللہ مجھے اپنے  راستہ میں شہادت نصیب فرما، اور اپنے رسول ﷺ کے شہر میں مجھے موت عطا فرما“۔  اور پھر  آپ یہ دونوں دعائیں قبول ہوگئیں۔

6۔۔ اور بالخصوص مدینہ منورہ میں مرنے والے کے لیے تو احادیث میں بہت سے فضائل بھی وارد ہوئے ہیں ، ایک حدیث مبارک میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مدینہ میں مرنے والے کے لیے میں قیامت میں شفاعت کروں گا“۔

7۔۔  کنز العمال میں ایک حدیثِ قدسی منقول ہے کہ : جس نے میرے  گھر  کی یا میرے رسول کی مسجد کی یا مسجد اقصی کی زیارت کی اور وہاں اس کا انتقال ہوگیا تو وہ شہید ہوگا۔

8۔۔ کنز العمال میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جو حرمین میں سے کسی میں انتقال کرے گا وہ قیامت کے دن امن کی حالت میں اٹھے گا۔

 9۔۔ ’’شمائلِ کبری‘‘  میں اعلاء السنن کے حوالہ سے منقول ہے کہ : جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موت کا وقت  قریب  ہونے لگا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اے اللہ مجھے بیت المقدس کے ایک پتھر مار کی مسافت کے بقدر قریب کردے ؛  تاکہ میں بیت المقدس کے قریب دفن ہوں۔

10۔۔ عمدۃ القاری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حجرہ مبارکہ میں دفن ہونے کی اجازت والے قصہ کے بعد منقول ہے : ” اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ  نیک لوگوں کےپڑوس میں دفن ہونے کی تمنا کرناجائز ہے،  اس خواہش پر کہ جب ان پر رحمت نازل ہو تو  انہیں  بھی پہنچے، اور جب دیگر نیک لوگ ان صلحاء  کی قبر کی زیارت کریں تو ان کی دعا میں انہیں بھی کچھ حصہ مل جائے۔ تلک عشرة کاملة 

 مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوا کہ نیک لوگوں کے قریب دفن ہونے کی خواہش اور تمنا کرنا جائز   بلکہ مستحب ہے، لہذا جنت البقیع اور جنت المعلیٰ میں دفن ہونے کی تمنا کرنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ مستحب ہے۔ 

لیکن ایک اور بات کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور آخرت میں نجات کے لیے اصل چیز ایمان اور اس کے بعد نیک اعمال ہیں۔ آخرت کی تیاری سے غافل ہوکر، اعمال سے دوری،  دین بے زاری اور سنتِ رسول ﷺ سے کنارہ کشی کرکے محض نیک لوگوں کے درمیان دفن ہونے کی تمنا کو نجات کا ذریعہ سمجھ لینا نری حماقت ہے۔ لہذا اولاً  آپ ﷺ کی کامل اتباع کی جائےاور ساتھ ساتھ یہ خواہش اور تمنا بھی ہو ۔” اللَّهُمَّ ارْزُقْنِا شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ واجْعَلْ مَوْتنا فِي بَلَدِ رسولِكَ“.

حوالہ جات ملاحظہ ہوں:

حلية الأولياء وطبقات الأصفياء (6/ 354):
"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ادفنوا موتاكم وسط قوم صالحين فإن الميت يتأذى بجار السوء كما يتأذى الحي بجار السوء» غريب من حديث مالك لم نكتبه إلا من حديث شعيب".

مصنف ابن أبي شيبة (3/ 33):
" عن محمد بن عبد الله، عن عمرو بن مرة، عن أبي عبيدة، عن عبد الله بن مسعود، قال: «ادفنوني في قبر عثمان بن مظعون» ۔۔۔ حدثنا معاوية بن هشام، عن سفيان، عن رجل، أن خيثمة، «أوصى أن يدفن، في مقبرة فقراء توأمة»".

سنن الترمذي ت شاكر (5/ 719):
" عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من استطاع أن يموت بالمدينة فليمت بها، فإني أشفع لمن يموت بها» وفي الباب عن سبيعة بنت الحارث الأسلمية: «هذا حديث حسن صحيح غريب من حديث أيوب السختياني»".
كنز العمال (12/ 271):
"35004- " قال الله عز وجل: من زارني في بيتي أو مسجد رسولي أو في بيت المقدس فمات مات شهيدا. " الديلمي - عن أنس".
35005- "من مات في أحد الحرمين بعث آمنا يوم القيامة. " طس - عن جابر".
35006- "من مات في أحد الحرمين استوجب شفاعتي وكان يوم القيامة من الآمنين. " طب، هب وضعفه - عن سلمان".
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (8/ 230):
"ذكر مَا يُسْتَفَاد مِنْهُ: فِيهِ: الْحِرْص على مجاورة الصَّالِحين فِي الْقُبُور طَمَعا فِي إِصَابَة الرَّحْمَة إِذا نزلت عَلَيْهِم، وَفِي دُعَاء من يزورهم من أهل الْخَيْر".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (10/ 252):

"0981 - حدَّثنا يَحْيَى بنُ بُكَيْرٍ قَالَ حدَّثنا اللَّيْثُ عنْ خالِدِ بنِ يَزِيدَ عنْ سَعِيدِ بنِ أبِي هِلاَلٍ عنْ زَيْدِ بنِ أسْلَمَ عنْ أبِيهِ عنْ عُمَرَ رَضِي الله تَعَالَى عنهُ قَالَ اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ واجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رسولِكَ وَحَدِيث.
هَذَا أثر عمر بن الْخطاب، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، ذكره هُنَا لمناسبة بَينه وَبَين الحَدِيث السَّابِق، وَذَلِكَ أَنه لما سمع النَّبِي، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، أَنه دَعَا بقوله: (أللهم حبب إِلَيْنَا الْمَدِينَة كحبنا لمَكَّة) ، سَأَلَ الله تَعَالَى أَن يَجْعَل مَوته فِي الْمَدِينَة إِظْهَارًا لمحبته إِيَّاهَا كمحبته لمَكَّة، وإعلاما بصدقه فِي ذَلِك بسؤاله الْمَوْت فِيهَا، وَقيل: ذكر ابْن سعد سَبَب دُعَائِهِ بذلك، وَهُوَ مَا أخرجه بِإِسْنَاد صَحِيح عَن عَوْف بن مَالك أَنه رأى رُؤْيا فِيهَا أَن عمر شَهِيد يستشهد، فَقَالَ لما قصها عَلَيْهِ أنَّى لي بِالشَّهَادَةِ وَأَنا بَين ظهراني جَزِيرَة الْعَرَب لست أغزو وَالنَّاس حَولي؟ ثمَّ قَالَ: بلَى وبلى يَأْتِي بهَا الله إِن شَاءَ الله تَعَالَى... قَوْله: (شَهَادَة فِي سَبِيلك) ، فَقبل الله دعاءه ورزق الشَّهَادَة، وَقَتله أَبُو لؤلؤة غُلَام الْمُغيرَة بن شُعْبَة، ضربه فِي خاصرته وَهُوَ فِي صَلَاة الصُّبْح، وَكَانَ يَوْم الْأَرْبَعَاء لأَرْبَع بَقينَ من ذِي الْحجَّة، وَقيل: لثلاث بَقينَ مِنْهُ سنة ثَلَاث وَعشْرين، وَهُوَ ابْن ثَلَاث وَسِتِّينَ سنة، فِي سنّ النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَسن أبي بكر رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ. قَوْله: (وَاجعَل موتِي فِي بلد رَسُولك) وَوَقع كَذَا، وَدفن عِنْد أبي بكر، وَأَبُو بكر عِنْد النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، فالثلاثة فِي بقْعَة وَاحِدَة هِيَ أشرف الْبِقَاع". 
 فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

مدینہ منورہ اورمکہ مکرمہ میں دفن ہونے کی تمنا کرنا کیسا ہے؟


فتوی نمبر : 144004201475

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں