بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے مہتمم کی شرعی حیثیت اور مہتمم کا صدقات میں تصرف


سوال

مدرسے کے مہتمم کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور  مہتمم کیا مدرسے کے چندے میں تصرفات کر سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

دینی مدارس کے مہتمم طلبہ  کے وکیل ہیں اور امین بھی ہیں، کیوں کہ مدارس کے طلبہ نے جب ان کے اہتمام کو تسلیم کرلیا  تو گویا یہ کہہ دیا کہ  آپ ہمارے لیے مال داروں سے زکاۃ وصول کرکے ہماری ضروریات میں صرف کریں، لہذا زکاۃ کی رقم مہتمم صاحب  کے پاس (یا مدرسے کے دفتر میں) جمع  ہوتے ہی زکاۃ دینے والوں کی زکاۃ ادا ہوجائے گی، البتہ مہتمم  صاحب پر یہ ضروری ہوگا کہ  وہ زکاۃ کی رقم صرف  طلبہ کی ضروریات  مثلاً کھانا، پینا، وظیفہ اور ان کے علاج پر خرچ کریں،  مدرسہ کے  عملہ کی تنخواہ، تعمیر اور بل وغیرہ میں خرچ نہ کریں، اور نہ ہی اپنی ذاتی ضروریات میں رقم خرچ کرنا جائز ہوگا۔

زکاۃ کے علاوہ دیگر مصارف کا بھی یہی حکم ہے کہ مہتمم کے پاس یہ چندہ امانت ہے، لہُذا مہتمم صاحب مدرسے اور مدرسے سے متعلقہ ضروریات میں ضابطے کے مطابق یہ چندہ صرف کرنے کے پابند ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعًا إلا إذا وكله الفقراء، وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه، إلا إذا قال ربها: ضعها حيث شئت.

(قوله: إذا وكله الفقراء)؛ لأنه كلما قبض شيئًا ملكوه وصار خالطًا مالهم بعضه ببعض، ووقع زكاة عن الدافع". (2/ 269، کتاب الزکوٰۃ، ط: سعید)

         فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لايجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت كذا في التبيين". (1/ 188،  کتاب الزکوٰۃ، الباب السابع فی المصارف، ط: رشیدیہ)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200956

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں