بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے ملازم کی استحقاقی چھٹیوں میں امتحانات وعیدین کی چھٹیوں کو شمار کرنا


سوال

 میں ایک دینی ادارےمیں ملازم ہوں اورمیری سالانہ عیدین و جمعہ سب کو ملا70 چھٹیاں ہوتی ہیں، مدرسہ میں طلبہ واساتذہ کوعیدالفطروعیدالاضحیٰ وسہ ماہی وشش ماہی وسالانہ میں جب چھٹیاں ہوتی ہیں تومجھے بھی زبردستی گھربھیجاجاتاہے کہ یہاں آپ کی ضرورت نہیں اورمیری رخصت لگائی جاتی ہے اورٹوٹل میں سے ان چھٹیوں کومنفی کیاجاتاہےاس سےمیراکافی نقصان ہوجاتاہے؛ کیوں کہ یہ ساری چھٹیاں ملاکر 70س ےزائداگرہوجائیں تومیری تنخواہ سے فی دن کےحساب سےکاٹی جاتی ہےاوراگرمیں جامعہ میں ہی رہناچاہوں توبھی میری رخصت ہی لگائی جاتی ہےان دنوں میں کہ جامعہ میں آپ کی ضرورت نہیں۔

اب اس کی وضاحت فرمائیں کہ ادارےکااس قسم کارویہ اختیار کرنا شرعاً جائزہے کہ ناجائز؟

جواب

         واضح رہے کہ کسی بھی ادارے  کے  ملازمین کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہوتی ہے،  کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اور  اجیرِ خاص  ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ)  کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ  ملازمت کے اوقات میں  حاضر نہیں  رہا  تو اس   غیر حاضری کے بقدر تنخواہ  کا وہ مستحق نہیں ہوتا،   اس معاملہ کا  اصل تقاضا تو یہ ہے کہ جب ملازم  کام نہ کرے تو اس کا معاوضہ بھی نہ لے،  لیکن  شریعت نے طرفین کو اختیار دیا ہے کہ  چھٹیوں  کی تنخواہ کے بارے میں باہمی رضامندی سے جو چاہیں طے کرلیں،   لہذا اگر مدرسہ کی انتظامیہ، ادارے کے افراد کے لیے  شرعی حدود میں رہتے ہوئے تنخواہ اور استحقاقی چھٹیوں سے  متعلق  کوئی  ضابطہ بناتی ہے تو اس کی اجازت ہے، اور جہاں  ضابطہ نہ ہوتو وہاں عرف کو مدار بنایا جائے گا۔

لہذا اگر ادارے کے ضابطہ میں یا تقرر کے وقت یہ معاہدہ کیا گیا ہو  کہ ادارے کے ملازم کو سالانہ ستر چھٹیاں استحقاقی ملیں گی، اور ان میں عید الفطر ، عید الاضحیٰ اور امتحانات کی چھٹیاں شامل ہوں گی، تو  اس صورت میں ان چھٹیوں کو بھی ستر استحقاقی چھٹیوں میں شمار کیا جائے گا۔ اور اگر معاہدہ میں یہ طے ہو کہ یہ سالانہ استحقاقی چھٹیاں، مدرسہ کی عمومی تعطیلات کے علاوہ  ہیں، جو ملازم اپنی ضرورت کے موقع پر کرسکتا ہے، تو  پھر  مدرسہ کی عمومی تعطیلات میں یہ ستر استحقاقی چھٹیاں شمار نہیں ہوں گی، اس صورت میں انتطامیہ کا مدرسہ کی عمومی تعطیلات میں مذکورہ ملازم کو زبردستی گھر بھیج کر ان چھٹیوں کو استحقاقی چھٹیوں میں شمار کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔

اگر معاہدہ میں اس کی صراحت نہ ہو کہ استحقاقی چھٹیاں مدرسہ کی عمومی تعطیلات کو شامل کرکے ہیں یا ان کے بغیر ہیں تو اس صورت میں عرف کو مدار بنایا جائے گا، ہمارے یہاں عرف یہ ہے عمومی تعطیلات استحقاقی چھٹیوں میں شمار نہیں کی جاتیں۔

مشکاۃ المصابیح  میں ہے:

"وعن عمرو بن عوف المزني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحًا حرم حلالًا أو أحل حرامًا، والمسلمون على شروطهم إلا شرطًا حرم حلالًا أو أحل حرامًا» . رواه الترمذي وابن ماجه وأبو داود وانتهت روايته عند قوله: «شروطهم»". (1/253، باب الافلاس والانظار، الفصل الثانی، ط: قدیمی)

       فتاوی شامی میں ہے:

"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل، فتاوى النوازل.
 (قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلًا يومًا يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولايشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة. وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضًا. واتفقوا أنه لايؤدي نفلًا، وعليه الفتوى ... (قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواةً بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة
 ".(6/70،  کتاب الاجارۃ، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201309

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں