بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے طالب علم کا گھر پر کھانا لےجانا


سوال

 کیا مدرسہ کا طالبِ  علم اپنے دو وقت کا مدرسہ سے ملنے والا کھانا گھر لے جاسکتا ہے؟ جواب اگر دلیل کے ساتھ ہو تو نوازش ہوگی!

جواب

جس دینی مدرسہ میں طالبِ  علم کو مدرسہ کی طرف سے تملیک کے طور پر کھانا دیا جاتا ہو اور مدرسہ کی انتظامیہ کی طرف سے اس کی اجازت بھی ہو،  یعنی کوئی انتظامی مشکل اور رکاوٹ نہ ہو تو ایسی صورت میں طالبِ علم کو دیا جانے والا کھانا طالبِ علم کی ملکیت ہوجاتا ہے، اور اپنی ملکیت میں مالک کو ہر طرح کا جائز تصرف کرنے کا چوں کہ اختیار ہے؛ اس لیے مدرسہ کا طالب علم مدرسہ سے ملنے والا کھانا اپنے کمرے یا گھر میں لے جانے کا مجاز ہوگا۔

البتہ تملیک کے بغیر ملنے والا کھانا جو عام دعوت وغیرہ کی صورت میں دیا جاتا ہے یا عطیات وغیرہ سے کھلانے کا انتظام کیا جاتا ہے وہ تملیک کی بجائے اباحت کے درجہ میں ہوتا ہے، جسے مدرسہ کے نظم کے مطابق مدرسہ میں کھانے کی اجازت تو ہوگی، گھر لےجانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

مجلة الأحكام العدلية (1 / 230):
"كل يتصرف في ملكه كيفما شاء. لكن إذا تعلق حق الغير به فيمنع المالك من تصرفه على وجه الاستقلال".

تفسير القرطبي (14 / 227):
"{فإذا طعمتم فانتشروا} في هذه الآية دليل على أن الضيف يأكل على ملك المضيف لا على ملك نفسه، لأنه قال:{فإذا طعمتم فانتشروا} فلم يجعل له أكثر من الأكل، ولا أضاف إليه سواه، وبقي الملك على أصله".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201531

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں