ہماری بستی میں تقریباً پچاس سال سے مدرسہ رجسٹرڈ کمیٹی کے ما تحت چلتا ہے اور مدرسین کی تنخواہ کے لیے بطورِ آمدنی اہلِ بستی کے اتفاق سے تمام متولیانِ مسجد مقررہ مقدار پر فصلانہ مدرسہ میں پہنچاتے ہیں اور مدرسہ اپنے ہی مدرسین کو مقررہ وظیفہ کے ساتھ مساجد کے لیے امام فراہم کرتا ہے، اس طرح سے اساتذہ پوری بستی کے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں، نیز ہر امام پہلے مدرسہ کا مدرس ہوتا ہے اور مدرسہ تدریس کی تنخواہ کے علاوہ مزید کچھ وظیفہ دے کر مدرسین کو امامت پر مامور کرتا ہے ۔
نیز قدیم زمانہ سے نظام ہے کہ جب بھی بستی کی کسی مسجد کے حلقہ میں نکاح ہوتا ہے اس کی نکاح خوانی مدرسہ کا حق ہوتا ہے نہ کہ امام کا، متعلقہ امام اس نکاح خوانی کو مدرسہ میں جمع کرتے ہیں، پھر مدرسہ کا ذمہ دار کمیٹی کی مقرر کردہ رقم بطورِ انعام حلقہ کے امام کو دیتا ہے، یہ ضابطہ ہر مدرس پہلے سے جانتا ہے تو ایسی صورت میں کیا تمام ائمہ مساجد اس نکاح خوانی کو مدرسہ میں جمع نہ کرکے کسی حیلہ سے بذاتِ خود رکھنا چاہیں تو شرعا یہ جائز ہے یا نا جائز ؟ نیز کمیٹی کا اس طرح کا ضابطہ مقرر کرنا جائز ہے یا نا جائز؟
اگر نکاح پڑھوانے کے خواہش مند حضرات نکاح پڑھانے کی ذمہ داری مدرسہ کمیٹی کو حوالہ کرتے ہیں،کمیٹی ہی ان کے نکاح کے انتظامات (مثلاً فارم فراہم کرنا / رجسٹریشن کرنا) انجام دیتی ہےاور کمیٹی کی ماتحتی میں نکاح پڑھانا مساجدکے ائمہ کی ذمہ داری ہو تومدرسہ کمیٹی کا یہ ضابطہ مقرر کرنا درست ہے کہ ائمہ حضرات کمیٹی کی ماتحتی میں منعقد ہونے والے نکاحوں کی نکاح خوانی مدرسہ میں جمع کرائیں، ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ حیلہ کرکے نکاح خوانی بذات خود رکھ لیں۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143904200009
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن