مدرسہ کی کوئی چیز مدرسے کا کوئی پڑوسی ادھار کے طور پر لے جاتا ہے، مثلاً: سیڑھی، اسٹول وغیرہ تو مدرسے کی ان چیزوں کے ذریعے سے ان کی معاونت کرنا شرعاً جائز یا نہیں؟ کیوں کہ جب ہمیں مدرسہ کے لیے کوئی چیز چاہیے ہوتی ہے ادھار کے طور پر تو وہ بھی دے دیتے ہیں۔
مدرسہ کے لیے وقف شدہ سامان مدرسہ کے علاوہ کسی اور مقصد میں یا ذاتی استعمال لانا شرعاً جائز نہیں، خواہ مدرسہ انتظامیہ سے پوچھا ہو یا نہ ہو۔ صرف اس وجہ سے کہ ضرورت پڑنے پر پڑوسی بھی عاریتاً چیز دے دیتا ہے وقف چیز کو غیر مصرف میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اگر اہلِ محلہ مدرسہ یا مسجد کا تعاون کرتے ہیں تو یہ ان کی سعادت ہے، اس تعاون کے بدلے یہ توقع رکھنا کہ مجھے بھی موقوفہ اموال یا اشیاء سے رعایت ملے گی، یا مدرسہ کے ذمہ داران اس وجہ سے موقوفہ اشیاء مدرسے سے باہر ذاتی استعمال کے لیے دیں کہ ناراض ہوگیا آئندہ تعاون نہیں کرے گا، یہ بالکل بھی درست نہیں ہے۔
البتہ اگر واقف نے مدرسہ انتظامیہ کو اپنی صواب دید پر استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہو تو اس صورت میں مدرسہ انتظامیہ پڑوسیوں کو عاریۃً یا بالاجرت دے سکتی ہے، اس وقت بھی بہتر یہی ہوگا کہ اجرت پر دی جائے اور حاصل شدہ اجرت ضروریات مدرسہ میں خرچ کرنا ضروری ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولاتجوز إجارة الوقف إلا بأجر المثل، كذا في المحيط السرخسي". ( كتاب الوقف، باب في ولاية الوقف و تصرف القيم، ٢ / ٤٠٢) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144103200687
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن