بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدت کے مقابلہ میں رقم کم کرنا


سوال

دو آدمیوں کے درمیان سودا ہوا کہ دو مہینے کے بعد میں  آپ کو اتنے پیسے دوں گا، بعد میں اس نے یہ کہا کہ ایک مہینے کے بعد دے دو تو اتنے پیسے کم کروں گا، کیا یہ جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں رقم کی کمی مدت کے مقابلہ میں کی جا رہی ہے اور جو کمی مدت کے مقابلہ میں ہو وہ کمی نا جائز ہوتی ہے، لہذا ایسا ڈسکاؤنٹ حاصل کرنا ناجائز ہے، اگر سودے میں ہی یہ شرط رکھی گئی تو معاملہ ہی ناجائز تھا، اسے منسوخ کرکے کسی شرطِ فاسد کے بغیر معاملہ کیا جائے۔ البتہ اگر سودا کرتے وقت یہ شرط نہیں رکھی گئی تھی، بلکہ ادھار کی صورت میں ایک قیمت متعین کرلی گئی تھی تو سابقہ قیمت پر سودا درست ہوگا، لہٰذا جو قیمت طے ہوئی ہے وہی ادا کی جائے۔ نیز سودا درست ہوجانے کے بعد اگر بائع مدت کے ساتھ مشروط کیے بغیر ڈسکاؤنٹ دے تو  اسے قیمت میں کمی کا حق ہوتاہے۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (27/ 331):
"أما لو صالحه عن ألف مؤجل على خمسمائة معجلة، فقد اختلف الفقهاء في جواز ذلك على قولين:
أحدهما: لجمهور الفقهاء - الحنفية والمالكية والشافعية - والصحيح عند الحنابلة أن ذلك لايجوز  ...  وقد علل الحنفية المنع في غير دين الكتابة: بأن صاحب الدين المؤجل لايستحق المعجل، فلايمكن أن يجعل استيفاء، فصار عوضًا، وبيع خمسمائة بألف لايجوز.
وبيان ذلك: أن المعجل لم يكن مستحقًا بالعقد حتى يكون استيفاؤه استيفاءً لبعض حقه، والتعجيل خير من النسيئة لا محالة، فيكون خمسمائة بمقابلة خمسمائة مثله من  الدين، والتعجيل في مقابلة الباقي، وذلك اعتياض عن الأجل، وهو باطل؛ ألا ترى أنّ الشرع حرم ربا النسيئة، وليس فيه إلا مقابلة المال بالأجل شبهة، فلأنّ تكون مقابلة المال بالأجل حقيقةً حرامًا أولى".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 168):
"باب الربا هو لغةً: مطلق الزيادة. وشرعًا: (فضل) ولو حكمًا فدخل ربا النسيئة". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144105201131

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں