بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مدارس کے سفیر کا ہدیہ قبول کرنا


سوال

سفیر کا ہدیہ قبول کرنا کیساہے؟ براہِ مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں؟

جواب

آپ کے سوال میں "سفیر کا ہدیہ قبول کرنا" کے الفاظ میں دو احتمال ہیں: 1۔ سفیر کے لیے دوسروں کا ہدیہ قبول کرنا۔ 2۔ سفیر کی طرف سے دیا گیا ہدیہ دوسرے شخص کے لیے قبول کرنا۔

پہلا احتمال بظاہر راجح ہے، اسی کے مطابق جواب لکھا جارہاہے۔

مدراس کے سفراء عاملین میں داخل نہیں ہیں؛  کیوں کہ یہ اسلامی حکومت کی طرف سے زکاۃ وصول کرنے پر مامور نہیں ہیں ، لہذا مال دار اہلِ خیر حضرات سفراء کو یہ کہہ کر کچھ رقم دیتے ہیں کہ  یہ آپ اپنی ضرورت میں خرچ کریں اور اس رقم کے بارے میں رسید بھی نہیں لیتے  تو یہ سفراء کے لیے اپنی ذات پر خرچ کرنا جائز ہے۔

ہاں وہ  سفراء جو فراہمی چندہ کے کام پر مامور ہوں اور مدرسے نے ان کو شخصی طور پر ہدیہ لینے سے روک دیا ہو ان پر لازم ہے کہ یا تو وہ شخصی ہدایا قبول نہ کریں یا قبول کریں تو مدرسے کے فنڈ میں ڈال دیں۔ (کفایت المفتی 7/103)

باقی سفراء کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ  ان لوگوں کا ہی  ہدیہ قبول کریں  جن کے ساتھ پہلے سے ان کے تعلقات ہوں یا جو پہلے سے ان کو تحائف دیتے ہوں یا جن لوگوں کے بارے میں یہ ظاہر ہوجائے کہ وہ ذاتی محبت کی وجہ سے ہی ہدیہ دے رہے ہیں، ان کے علاوہ عام لوگوں کے تحائف سے احتراز کرنا چاہیے، اور اگر ذاتی تعلقات والوں کے علاوہ کوئی تحفہ دے تو اسے مدرسے کے فنڈ میں ہی جمع کرادینا چاہیے۔ 

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 44)
'' وأما العاملون عليها فهم الذين نصبهم الإمام لجباية الصدقات''.
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201874

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں