بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدارس کا نغمہ بنانا


سوال

لوگ مدارس کو کسی بھی مد کا چندہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور خورد و نوش کے معاملات کو بہتر اسلوب سے پورا کرنے کے لیے دیتے ہیں۔ سوال یہ کہ کیا ان چندہ جاتی رقوم سے جمہوری ملک اور خصوصاً فوج کے حق میں نغمے بنانا اور بچوں کو ان کے تعلیمی اوقات سے نکال کر نغمہ جاتی پرتکلف اور تصنع و دکھلاوے سے بھرپور پروگراموں میں پرفارمنس کرنے میں مشغول کرنا شرعاً جائز ہے یا ناجائز؟ اور کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنے علمی ورثاء کی یہی کام کرنے کی ذمہ داری متعین کی گئی ہے؟  اور ایسی تصنع بھری سرگرمیاں اتنی ہی ضروری ہیں تو یہ معاملات نائن الیون کے بعد ہی کیوں شروع ہوئے ہیں؟ اس سے پہلے مدارس نے ان بھاری بھر کم ذمہ داریوں کی طرف توجہ نہ کر کے وطنِ عزیز کے تحفظ اور فوج کے وقار واستحکام کے حوالے سے سستی یا تغافل کا غیرذمہ دارانہ رویہ کیوں اختیار کیے رکھا تھا؟

جواب

صورت مسئولہ میں  ذکر کردہ تفصیل کے مطابق نغمات بنانا اور اس کے لیے باقاعدہ پروگرام بنانا کئی مفاسد پر مشتمل ہے:

1۔۔ ان پروگراموں  میں ویڈیو سازی کی جاتی ہے ، اور جو نغمے بنائے جاتے ہیں اس میں جان دار کی تصاویر ہوتی ہیں، جو شرعا ناجائز اور حرام ہے۔

2۔۔ بسا اوقات ان میں آلاتِ موسیقی کا استعمال بھی ہوتا ہے  جو شرعاً ناجائز ہے۔

3۔۔ صحیح مضامین پر مشتمل نغمات  وغیرہ سننے کے لیے  ایک شرط یہ بھی ہے کہ  ان اشعار کو پڑھنے والا پیشہ ور گویا، فاسق، بے رِیش لڑکا یا عورت نہ ہو، لہذا اگر ان نغمات میں بے ریش بچوں کی خدمات لی جائیں اور ان کی تشہیر کی جائے  تو یہ ایک مستقل مسئلہ ہے۔

4۔۔ مدارس کا عمومی چندہ مدرسہ کی ضروریات کے لیے ہوتا ہے ، اس سے نغماتی پروگرام منعقد کرنا یا نغمہ وغیرہ بنانا شرعاً جائز نہیں ہے۔

5۔۔ اس میں اسراف اور فضول خرچی بھی ہے جو کہ ممنوع ہے۔

لہذا اس طرح کے مفاسد پر مشتمل نغمات بنانا شرعاً جائز نہیں ہے، مدارس کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے، اور طلبہ کی تعلیم وتربیت پر توجہ دینی چاہیے ،دیگر سرگرمیوں سے انہیں دور رکھنا چاہیے۔

باقی وطن سے محبت ایک فطری چیز ہے اور جذبہ حب الوطنی اچھا جذبہ ہے، اور صحیح مضامین پر مشتمل اشعار جب کہ اس میں دیگر مفاسد نہ پائیں جائیں فی نفسہ جائز ہے، لہذا اگر کوئی نجی طور پر ان تمام مفاسد سے بچتے ہوئے اشعار پڑھتا ہے یا سنتا  ہے اور ضروری سمجھے بغیر کبھی تقریب بھی اس کے لیے منعقد کرلی جاتی ہے تو اسے ناجائز نہیں کہا جائے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201846

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں