بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مدارس میں سر کے بال کٹوانے کی پابندی کیوں کرائی جاتی ہے؟


سوال

بہت سارے مدرسوں میں داخلہ کے وقت سرکے بال منڈوانا ضروری ہوتا ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ بہت ضروری عمل ہے؟جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تین طرح کے تھے، جمہ ،لمہ وفرہ۔  اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج یا کسی دوسری ضرورت کے تحت  منڈوایا، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اپنے عارض کی وجہ سے منڈاتے تھے کوئی شوقیہ نہیں کیا ہے، تو مدرسوں میں ایسا ہونے سے شبہ ہوتا ہے۔ براہِ کرم دلیل کے ساتھ مطلع فرمائیں!

جواب

چند تمہیدات ملاحظہ ہوں؛ تاکہ متعلقہ سوال کا جواب سمجھنے میں آسانی ہو:

1۔۔احادیثِ مبارکہ  سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ سر پر بال رکھنے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے، عام حالت میں کانوں کی لو تک بال رکھا کرتے اور کبھی وہ بڑھ کر  کاندھے کے قریب بھی پہنچ جایا کرتے؛ اس لیے عام حالات میں بال  رکھنے کا مسنون طریقہ یہی ہے، لیکن آپ ﷺ نے بال رکھنے سے متعلق بہت سی ہدایات بھی دی ہیں کہ اگر کوئی شخص بال کاٹے تو پورے کاٹے ، آدھے کاٹنا اور آدھے بال رکھنا جیسا کہ غیر اقوام کا طریقہ ہے، یہ درست نہیں ، اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی تعلیم دی کہ جو شخص بال رکھے ان کا اِکرام بھی کرے،  یعنی کنگھی اور تیل وغیرہ کا اہتمام کرے اور بالوں کو صاف ستھر ا رکھے اور  ان کو پراگندہ ہونے سے بچائے۔

2۔۔ بال رکھنا جس طرح سنت ہے، اسی طرح بال کاٹنے کو بھی بعض محدثین نے اور بالخصوص ہمارے فقہاءِ کرام نے سنت کہا ہے، اور ہر جمعہ بالوں کے حلق کو مستحب کہا گیا ہے۔

3۔۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ  آپ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرکے کہ" جنابت کے غسل میں اگر ایک بال بھی خشک رہ گیا تو اس کا غسل نہیں ہوگا۔۔۔الخ" فرماتے ہیں: اسی وجہ سے میں نے اپنے  بالوں سے دشمنی کرلی، یعنی انہیں خوب جڑ سے کاٹتا ہوں،   اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ سر کے بال حلق کیا کرتے تھے، علامہ طیبی رحمہ اللہ نے اس سے استدلال کیا ہے کہ جس طرح بال رکھنا سنت ہے اسی طرح بالوں کو خوب اچھی طرح  کاٹنا بھی سنت  ہے، ایک تو اس لیے  کہ آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس عمل کو دیکھا اور اس پر سکوت  فرمایا،  گویا یہ آپ ﷺ کی تقریر ہے، اور اہلِ علم خوب جانتے ہیں کہ قول  اور فعل کی طرح تقریرِ رسول اللہ ﷺ بھی حدیث ہی ہوتی ہے۔ نیز خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ خلفائے راشدین میں سے ہیں جن کی سنتوں کے اتباع کا بھی ہمیں حکم ہے۔ تاہم ملاعلی قاری رحمہ نے اس  کو سنت  کہنے پر اشکال کیا ہے اور حلق کو رخصت کہا ہے۔ لیکن یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ حضور ﷺ کے وصال کے بعد بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہی معمول رہا اور کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر کبھی نکیر نہیں کی۔ بہرحال معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کسی دنیاوی یا جسمانی عارض کی وجہ سے نہیں بلکہ شرعی حکم(غسل کی تکمیل) کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کا مستقل معمول بنالیا تھا۔ نیز شرعی حکم کے اثبات کے لیے یہ تعبیر بھی درست نہیں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شوقیہ سر کے بال نہیں منڈوائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دینی احکام پر عمل شوقیہ نہیں، اطاعتِ خداوندی اور اتباعِ رسول اللہ ﷺ میں نہایت اخلاص کے ساتھ کیا کرتے تھے۔

مفتی محمد سعد اللہ لاہوری (1266ھ) اپنے رسالہ ”ہدایہ النور فیما یتعلق بالاظفار والشعور‘‘  میں اس حوالے سے تحریر فرماتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ :

”راقم الحروف کہتا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فعل حضور ﷺ کے روبرو آپ ﷺ کی ممانعت نہ فرمانے کی بنا پر تقریرِ نبی میں داخل ہوا تو ضرور یہ سنت کہلائے گا، زیادہ سے زیادہ صرف یہ کہا جاسکتا ہے  کہ اس کے برعکس سر پر بال رکھنا بھی سنت ہے،  یہی وجہ ہے کہ ’’فتاوی عالمگیری‘‘ میں ’’روضہ زندویسی‘‘ کے حوالہ سے نقل کیا ہے : "أن السنة في شعر الرأس إما الفرق أو الحلق. وذكر الطحاوي: أن الحلق سنة، ونسب ذلك إلى العلماء الثلاثة". (تحقیق سنت طریقہ سر کے بالوں میں یہ ہے کہ  یاتو بال رکھ کر درمیان سے سیدھی مانگ نکالی جائے یا پھر سر منڈوایا جائے اور امام طحاوی ؒ نے سر منڈوانے کو سنت کہا ہے، یہ بات ائمہ ثلاثہ احناف کی طرف منسوب کی ہے)۔انتھی‘‘.

4۔۔ علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء فرماتے ہیں : ’’اگر کسی شخص کے لیے  بال رکھ کر اس میں تیل لگانا اور خیال کرنا مشکل ہو تو  اس کے لیے حلق مستحب ہے، اور جس کے لیے  بالوں کا خیال رکھنا مشکل نہ ہو  ان کے لیے بال رکھنا افضل ہے۔

5۔۔ اگر  ولی یا سرپرست اپنے ماتحتوں کے بارے میں یہ بہتر سمجھے کہ وہ بال رکھ کر اس کا خیال نہیں رکھ سکیں گے، یا اس میں لگ کر  وہ دوسری اہم ضروریات سے غافل ہوجائیں گے، یا  تعلیمی ضرویات وغیرہ  جیسے اہم امور میں مشغولیت کی وجہ سے وہ انہیں بال کٹوانے کا حکم دے تو یہ اس کے لیے جائز ہے،  حدیثِ  مبارک میں ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے تین دن بعد ان کے بچوں کو بلایا اور حلاق کو بلا کر ان سب کو گنجا کرادیا، اس حدیث کے تحت ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: باوجود یہ کہ بال رکھنا افضل ہے، آپ ﷺ نے ان بچوں کے بال اس لیے کٹوائے کہ ان کی ماں اسماء بنت عمیس شوہر  کی جدائی  کی وجہ سے سخت صدمہ سے دو چار تھیں، ان کو غم کی وجہ سے اتنی فرصت کہاں ملتی کہ وہ  بچوں کے بال میں تیل ، کنگھی کرتیں؛ اس لیے آپ ﷺ نے ان کے بال کٹوادیے، اس کے بعد ملاعلی قاری رحمہ اللہ ، عبد الملک رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ولی کو اپنے ماتحت بچوں کے حلق وغیرہ کا حق ہے۔اور مدارس کے اساتذہ،  طلبہ کے سرپرست ہی ہوتے ہیں۔

ان تمام تمہیدات کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے :

 مدراسِ دینیہ میں انتظامی طور پر بال رکھنے سے منع کیا جاتا ہے، اور اکابرینِ سلف کا بھی یہی طریقہ رہا ہے، اور وہ اس میں طلبہ کرام کے بے شمار مصالح مدِنظر رکھتے ہیں،اور بالخصوص ان کی تربیت کا پہلو مدنظر ہوتا ہے ، جب کہ یہ فعل ناجائز نہیں ، بلکہ جائز اور مستحب ہے، یہاں تک کہ بعض اہلِ علم نے اسے سنت بھی کہا ہے؛ لہذا مدارس کے طلباء کے لیے معاہدہ کی رو  سے انتظامیہ کی ہدایات کے مطابق بال کٹوانا ضروری ہے۔

مشكاة المصابيح (2/ 1265):
"وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ كَانَ لَهُ شعرٌ فليُكرمه» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2827):
"(وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من كان له شعر) : بفتح العين ويسكن، والظاهر أن المراد به شعر الرأس (فليكرمه) : أي فليزينه ولينظفه بالغسل والتدهين ولايتركه متفرقاً ؛ فإن النظافة وحسن المنظر محبوب".
كنز العمال (6/ 641):
"17176- "أكرم شعرك وأحسن إليه". "ن عن أبي قتادة".
17177- "أكرموا الشعر". "البزار عن عائشة".
17178- "إن اتخذت شعرا فأكرمه". "هب عن جابر".
سنن أبي داود (4/ 83):

" عن عبد الله بن جعفر، أن النبي صلى الله عليه وسلم أمهل آل جعفر ثلاثاً أن يأتيهم، ثم أتاهم، فقال: «لا تبكوا على أخي بعد اليوم» ، ثم قال: «ادعوا لي بني أخي» ، فجيء بنا كأنا أفرخ، فقال: «ادعوا لي الحلاق» ، فأمره فحلق رءوسنا".
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2834):
"(فقال: ادعوا لي) : أي لأمري (الحلاق) : أي المزين (فأمره) : أي بعد مجيئه (فحلق رءوسنا) . وإنما حلق رءوسهم مع أن إبقاء الشعر أفضل إلا بعد فراغ أحد النسكين على ما هو المعتاد على الوجه الأكمل؛ لما رأى من اشتغال أمهم أسماء بنت عميس عن ترجيل شعورهم بما أصابها من قتل زوجها في سبيل الله، فأشفق عليهم من الوسخ والقمل. قال ابن الملك: وهذا يدل على أن للولي التصرف في الأطفال حلقاً وختاناً. (رواه أبو داود، والنسائي)".

سنن أبي داود (1/ 65):
"عن علي رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من ترك موضع شعرة من جنابة لم يغسلها فعل بها كذا وكذا من النار». قال علي: فمن ثم عاديت رأسي ثلاثاً، وكان يجز شعره".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 430):
"(عاديت رأسي) : مخافة أن لا يصل الماء إلى جميع شعري، أي: عاملت مع رأسي معاملة المعادي مع العدو، من القطع والجز، فجززته وقطعته، وروى الدارمي وأبو داود في آخر هذا الحديث: أنه كان يجز شعره، وقيل: عاديت رأسي، أي: شعري، كذا نقله السيد جمال الدين. وعن أبي عبيدة: عاديت شعري رفعته عند الغسل (فمن ثم عاديت رأسي) : أي: فعلت برأسي ما يفعل بالعدو من الاستئصال وقطع دابره ". قال الطيبي: وفيه أن المداومة على حلق الرأس سنة ؛ لأنه صلى الله عليه وسلم قرّره، ولأن علياً رضي الله تعالى عنه من الخلفاء الراشدين الذين أمرنا بمتابعة سنتهم اهـ.
ولا يخفى أن فعله كرم الله وجهه إذا كان مخالفاً لسنته صلى الله عليه وسلم وبقية الخلفاء من عدم الحلق إلا بعد فراغ النسك  يكون رخصةً لا سنةً، والله تعالى أعلم. ثم رأيت ابن حجر نظر في كلام الطيبي، وذكر نظير كلامي، وأطال الكلام فيه".

شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (3/ 814):
"((وكان علي رضي الله عنه يجز شعره))، وفيه أن المداومة علي حلق الرأس سنة؛ لأنه صلى الله عليه وسلم قرره علي ذلك، ولأنه رضوان الله عليه من الخلفاء الراشدين المهديين الذين أمرنا بإتباع سنتهم، والعض عليها بالنواجذ".
شرح النووي على مسلم (7/ 167):
" قال أصحابنا: حلق الرأس جائز بكل حال، لكن إن شق عليه تعهده بالدهن والتسريح استحب حلقه، وإن لم يشق استحب تركه".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (3/ 37):
"حدّثنا مُحمَّدُ بنُ عَبْدِ الرَّحيم قَالَ: أخبرنَا سَعِيدُ بنُ سُلَيْمانَ قَالَ: حدّثنا عَبَّادٌ عَن ابنِ عَوْنٍ عَن ابْن سِيرينَ عَنْ أنَسٍ أنَّ رسولَ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم لَمَّا حَلَقَ رَأسَهُ، كانَ أبُو طَلْحَةَ أوّلَ منْ أخَذَ مِنْ شَعَرِهِ ... بَيَان استنباط الأحكام من الأحاديث الْمَذْكُورَة: الأول: أَن فِيهِ الْمُوَاسَاة بَين الْأَصْحَاب فِي الْعَطِيَّة وَالْهِبَة. الثَّانِي: الْمُوَاسَاة لَا تَسْتَلْزِم الْمُسَاوَاة. الثَّالِث: فِيهِ تنفيل من يتَوَلَّى التَّفْرِقَة على غَيره. الرَّابِع: فِيهِ أَن حلق الرَّأْس سنة أَو مُسْتَحبَّة اقْتِدَاء بِفِعْلِهِ، عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 407):
" وأما حلق رأسه ففي الوهبانية وقد قيل:
حلق الرأس في كل جمعة ... يحب وبعض بالجواز يعبر.
(قوله: وأما حلق رأسه إلخ) وفي الروضة للزندويستي: أن السنة في شعر الرأس إما الفرق أو الحلق. وذكر الطحاوي: أن الحلق سنة، ونسب ذلك إلى العلماء الثلاثة".

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 525):
"وأما حلق الرأس ففي التتارخانية عن الطحاوي: أنه سن عند أئمتنا الثلاثة اهـ وفي روضة الزند ويستى: السنة في شعر الرأس أما الفرق وأما الحلق اهـ يعني حلق الكل إن أراد التنظيف، أو ترك الكل ليدهنه ويرجله ويفرقه؛ لما في أبي داود والنسائي عن ابن عمران أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى صبياً حلق بعض رأسه وترك بعضه فقال صلى الله عليه وسلم: "احلقوه كله أو اتركوه كله". وفي الغرائب: يستحب حلق الشعر في كل جمعة". 
 فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144010200361

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں