بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مخلوط تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں اور فیشن ڈیزائننگ سیکھنے والوں کے تعلیمی اخراجات زکات سے دینا


سوال

 ہم ایک فلاحی ادارے سے منسلک ہیں، ہمارے پاس زکات،صدقات اور دیگر مد میں رقوم آتی ہیں، جس میں سےہم غریبوں کی مدد اور ان کے بچوں کے تعلیمی اخراجات کے لیے رقم دیتے ہیں،  سوال یہ ہے کہ کیا ہم مخلوط تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے لڑکے/لڑکیوں کے تعلیمی اخراجات اس فنڈ میں سے دے سکتے ہیں اور اسی طرح فیشن ڈیزائننگ کی تعلیم کے  لیے اس مد میں سے رقم دینے کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

امام غزالی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب’’احیاء العلوم‘‘  ( ج:۱، ص:۱۵۲، ۱۸۹، ۱۹۰) میں لکھا ہے کہ:

’’زکات وغیرہ دینے کے لیے ایسے دین دار لوگوں کو تلاش کرے جو دنیا کی طمع و طلب کو چھوڑ کر آخرت کی تجارت میں مشغول ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ارشاد ہےکہ: "تم پاک غذا کھاؤ اور پاک لوگوں کو کھلاؤ"، نیز یہ بھی آپ کا ارشاد ہے کہ: " نیک کام کرنے والے ہی کو اپنا کھانا کھلاؤ"؛ کیوں کہ وہ لوگ اللہ تعالی کی طرف متوجہ  ہیں، جب وہ لوگ تنگ دست ہوتے ہیں تو ان کی توجہ ہٹ جاتی ہے، لہذا جن لوگوں کی توجہ دنیا کی طرف ہے ایسے ہزاروں افراد کو زکات دینے سے ایسے ایک آدمی کو  زکات دینا بہتر ہے جس کی توجہ اللہ تعالی کی طرف ہو اور پرہیزگاروں میں سے بھی ایسے اہلِ علم کو خاص کردیں جو اپنے علم  سے صرف اللہ کی رضا کے لیے لوگوں کو نفع پہنچارہے ہیں، اور مذہبِ اسلام کی پختگی اور دینی علوم کی اشاعت اور تبلیغ میں  لگے ہوئے ہیں، کیوں کہ علم پڑھنا پڑھانا تمام عبادتوں سے افضل عبادت ہے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ ہمیشہ اپنی زکات و خیرات اہلِ علم پر ہی خرچ کرتے تھے اور فرماتے تھےکہ: "میں نبوت کے درجہ کے بعد علماء کے درجہ سے افضل کسی کا مرتبہ نہیں دیکھتا ہوں، کیوں کہ اگر اہلِ علم تنگ دست ہوں گے تو دین کی خدمت نہیں ہوسکے گی جس کی وجہ سے دین کام میں نقص آجائے گا، لہذا علمی خدمت کے لیے ان کو فارغ اور بے فکر کردینا چاہیے، یہ سب سے افضل اور بہتر ہے‘‘۔ 

لہذا صورتِ مسئولہ میں مخلوط تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والوں اور فیشن ڈیزائننگ سیکھنے والوں کے اخراجات زکات کی مد میں سے ادا کرنا بشرطیکہ وہ زکات کے مستحق ہوں اور انہیں مالک بناکر زکات ادا کردی جائے اگرچہ جائز ہے، لیکن اس پر وہ  اجر و ثواب نہیں ملے گا جو دینی تعلیم یا کسی دینی خدمت میں مصروف لوگوں یا دین دار اور نمازی پرہیزگار مستحق زکات لوگوں کو دینے سے ملے گا، لہذا انہیں ترجیح دینے کی کوشش کی جائے۔ 

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (2 / 269):
"وَلَيْسَ عَدَمُ الْكَرَاهَةِ مُنْحَصِرًا في هَاتَيْنِ لِأَنَّهُ لو نَقَلَهَا إلَى فَقِيرٍ في بَلَدٍ آخَرَ أَوْرَعَ وَأَصْلَحَ كما فَعَلَ مُعَاذٌ رضي اللَّهُ عنه لَا يُكْرَهُ وَلِهَذَا قِيلَ التَّصَدُّقُ على الْعَالِمِ الْفَقِيرِ أَفْضَلُ". 
الدر المختار شرح تنوير الأبصار 
(2 / 353):
"(و) كره (نقلها إلا إلى قرابة) بل في الظهيرية لاتقبل صدقة الرجل وقرابته محاويج حتى يبدأ بهم فيسد حاجتهم (أو أحوج) أو أصلح أو أورع أو أنفع للمسلمين (أو من دار الحرب إلى دار الإسلام أو إلى طالب علم) وفي المعراج: التصدق على العالم الفقير أفضل (أو إلى الزهاد أو كانت معجلةً) قبل تمام الحول فلايكره، خلاصة".   فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201193

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں