بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

محمد نام رکھنے کا حکم کیا  ہے؟


سوال

’’محمد‘‘  نام رکھنے کا حکم کیا  ہے؟

جواب

’’محمد‘‘  نام رکھنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے،  بلکہ باعثِ برکت ہے،   حضور ﷺ نے محمد نام رکھنے کی خود اجازت عطا فرمائی ہے۔ جیساکہ حدیثِ پاک میں ہے:

"سمّوا بإسمي، ولاتكنوا بكنيتي". (صحیح مسلم،(3/1682) کتاب الاداب، ط: دار احیاء التراث العربی)

یعنی میرے نام پر نام رکھو، البتہ میری کنیت اختیار نہ کرو۔ 

اور "بخاری شریف"  کی صحیح  روایت کے مطابق  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نام خود اللہ تعالی نے رکھا ہے۔  

آپ ﷺ کا معمول تھا کہ نومسلموں میں سے بھی  اگر کسی کا نام صحیح نہ ہوتا  تو آپ ﷺ اس کا نام  تبدیل  فرمادیتے، چناں چہ کچھ صحابہ کا نام  آپ ﷺ نے خود تبدیل کرکے ”محمد“ رکھا۔

محمد بن خلیفہ، محمد مولی رسولﷺ، محمد بن طلحہ،  محمد بن نبیط، محمد بن عباس بن فضلۃ، محمد بن انس بن فضالۃالانصاری، محمد بن مخلد بن سحیم، محمد بن یفدیدویہ، محمد بن ہلال بن العلیٰ، محمد بن معمر، محمد بن ضمرۃبن الاسود، محمد بن عمارۃ  بن حزم، محمد بن ثابت، محمد بن عمرو بن حزم، یہ وہ صحابہ ہیں جن کا نام حضور اکرم  ﷺ  نے  ”محمد“ رکھا یا حضور ﷺ کے حکم سے ان کا نام ”محمد“ رکھا گیا ، بلکہ اپنی امت کو بھی آپ ﷺ نے ”محمد“نام رکھنے کی ترغیب دی، چناں چہ فرمایا:

"ما ضر أحدكم لو كان في بيته محمد ومحمدان وثلاثة".(فيض القدير(5/ 453) حرف المیم، ط:المکتبۃ التجاریہ الکبری ، مصر)

ترجمہ: تم میں سے کسی کا کیا نقصان ہے(یعنی کوئی نقصان نہیں ) اس بات میں کہ اس کے گھر میں ایک، دو یا تین محمد(نام والے) ہوں۔

کتابوں میں ”محمد“ نام رکھنے کے فضائل پر متعدد روایات نقل کی گئی ہیں ،  لیکن چوں کہ ان پر شدید جرح ہوئی ہے اور بعض روایات کو موضوع اور بعض کو کذب بھی لکھا گیا ہے؛ اس لیے یہاں صرف چند ایسی احادیث  ذکر کی جاتی ہیں  جو بعض محدثین کے یہاں صحیح ہیں، اس کے علاوہ  چند تابعین اور دیگر محققین علماء کے اقوال ذکر کیے جاتے ہیں ۔

1...سیرت کی مشہور کتاب ”سیرتِ حلبیہ“ میں بعض محدثین کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ”محمد“ نام کی فضیلت  میں جو احادیث ہیں ان میں  جو سب سے زیادہ صحیح ہونے کے قریب ہے وہ صرف یہ ہے کہ " جس شخص  کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اور وہ میری محبت کی وجہ سے اور میرے نام  سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس بچے کا نام ”محمد“ رکھے تو وہ شخص اور اس کا بچہ دونوں جنتی ہوں گے"۔

"قال بعض الحفاظ: وأصحها أي أقربها للصحة: «من ولد له مولود فسماه محمداً حباً لي وتبركاً باسمي كان هو ومولوده في الجنة»" .(السيرة الحلبية  (1/ 121) باب تسمیتہ ﷺ محمداً واحمد، ط: دارا لکتب العلمیہ)

2...  اس سے ملتی جلتی  روایت ”العرف الشذی“(جوکہ حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی تقریرِ درسِ ترمذی ہے) میں بھی "معجم الطبرانی" کے حوالہ  سے نقل کی گئی ہے کہ" جس نے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھا ، میں اس کی شفاعت کروں گا"۔

"وفي رواية في المعجم للطبراني: «من سمى ولده محمداً، أنا شفيعه». وصحّحها أحد من المحدثين وضعّفه آخر". (العرف الشذي شرح سنن الترمذي (4/ 181) کتاب الآداب، باب ما جاء یستحب من الأسماء ، ط: دارإحیاء التراث العربي، بیروت)

3..."سیرتِ حلبیہ" میں ایک اور معضل روایت نقل کی گئی ہے  کہ "قیامت کے دن ایک پکارنے والا پکارے گا کہ اےمحمد! اٹھیے اور بغیر حساب  کتاب کے جنت میں داخل ہوجائیے ، تو ہر وہ آدمی جس کا نام ”محمد“ ہوگا  یہ سمجھتے ہوئے کہ  یہ اسے کہا جارہا ہے  وہ (جنت میں جانے کے لیے) کھڑا ہوجائے گا تو حضرت محمدﷺ کے اِکرام میں انہیں جنت میں جانے سے نہیں روکا جائےگا"۔

"وفي حديث معضل: «إذا كان يوم القيامة نادى منادٍ: يا محمد! قم فادخل الجنة بغير حساب! فيقوم كل من اسمه محمد، يتوهم أن النداء له؛ فلكرامة محمد صلى الله عليه وسلم لايمنعون»". (السيرة الحلبية  (1/ 121) باب تسمیتہ ﷺ محمداً واحمد، ط: دارا لکتب العلمیہ)

4...  امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کہ ’’میں نے اہلِ مکہ سے سنا ہے کہ  جس گھر میں ”محمد“ نام والا ہو تو اس کی وجہ سے ان کو اور ان کے پڑوسیوں کو رزق دیا جاتا ہے‘‘۔

"سمعت أهل مكة يقولون: ما من بيت فيه اسم محمد إلا نمى ورزقوا ورزق جيرانهم". (كتاب الشفاء، الباب الثالث، الفصل الاول،(1/176) ط: دارالفکر)

5...حدیث  شریف میں ”عبداللہ“ اور ”عبد الرحمن“ نام رکھنے کی ترغیب بھی آئی ہے، ان دو ناموں  کو اللہ کے نزدیک سب سے محبوب نام بتایا گیا ہے، علامہ شامی رحمہ اللہ نے اس پر بحث کرتے ہوئے کہ اللہ کے ہاں سب سے محبوب نام کون سا ہے؟ علامہ مناوی  رحمہ اللہ کے حوالہ سے  لکھا ہے کہ ” عبد اللہ“ اور ”عبد الرحمن“ ناموں کا افضل ہونا ”عبد“ سے شروع ہونے والے ناموں کے اعتبار سے ہے؛  کیوں کہ عرب لوگ ” عبد شمس“ اور عبد دار“ وغیرہ نام رکھا کرتے تھے تو یہ حکم ہوا کہ  ” عبد اللہ“ اور ”عبد الرحمن“ نام رکھا کرو، اب یہ اس بات کے منافی نہیں ہے  کہ اللہ تعالیٰ کے  ہاں ناموں میں سے  سب سے محبوب نام ”محمد“ اور ”احمد“ ہیں؛ کیوں کہ  اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کے لیے وہی نام پسند کیے  جو ان کے ہاں سب سے محبوب ہیں، اور گزشتہ سطور میں صحیح بخاری کے حوالے سے گزرا کہ آپ ﷺ کا نامِ نامی خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے منتخب فرمایا ۔

"قال المناوي : ... وتفضيل التسمية بهما محمول على من أراد التسمي بالعبودية؛ لأنهم كانوا يسمون عبد شمس وعبد الدار، فلا ينافي أن اسم محمد وأحمد أحب إلى الله تعالى من جميع الأسماء، فإنه لم يختر لنبيه إلا ما هو أحب إليه، هذا هو الصواب، ولا يجوز حمله على الإطلاق اهـ. وورد: «من ولد له مولود فسماه محمداً كان هو ومولوده في الجنة». رواه ابن عساكر عن أمامة رفعه قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن اهـ".(فتای شامی(6/ 417) کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید)

اس لیے  اللہ تعالیٰ اولاد سے نوازیں  تو کم از کم ایک بیٹے  کا نام حبیبِ خدا ﷺ کے نام پر رکھنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200280

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں