جس عورت کا کوئی محرم نہ ہو، اس کی وفات کے بعد اس کو قبر میں کون اتارے گا?
صورتِ مسئولہ میں اگر عورت کی میت کو قبر میں دفنانے کے لیے اس کا کوئی نسبی، رضاعی، یا سسرالی محرم موجود نہ ہو تو محرم کے علاوہ دیگر رشتہ داروں میں جو نیک بزرگ لوگ موجود ہوں وہ عورت کو قبر میں اتارسکتے ہیں، اور اگر وہ بھی نہ ہو یا کافی نہ ہوں تو پھر نیک جوان افراد بھی عورت کو قبر میں اتارسکتے ہیں، اگر کوئی غیر محرم رشتہ دار بھی نہ ہو تو پھر اجنبی نیک لوگ عورت کو قبر میں اتارسکتے ہیں۔
خلاصة الفتاوي (1/225):
"المرأة إذا ماتت، وليس لها محرم فأهل الصلاح من جيرانها يلي دفنها ... فان كان من المحارم من النسب او الرضاع او من جهة المصاهرة مثل ابن زوجها نزل قبرها، وان لم يكن نزل المشايخ فان لم يكن فالشبان الصلحاء".
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (1/ 245):
"فرع: قال الولوالجي: المرأة إذا ماتت، وليس لها محرم فأهل الصلاح من جيرانها يلي دفنها، ولايدخل أحد من النساء القبر؛ لأن مس الأجنبي إياها فوق الثوب يجوز عند الضرورة في حال الحياة فكذا بعد الوفاة. اهـ".
الفتاوى الهندية (1/ 166):
"ويستحب أن يكونوا أقوياء أمناء وصلحاء، كذا في التتارخانية. وذو الرحم المحرم أولى بإدخال المرأة من غيرهم، كذا في الجوهرة النيرة. وكذا ذو الرحم غير المحرم أولى من الأجنبي، فإن لم يكن فلا بأس للأجانب وضعها، كذا في البحر الرائق. ولايدخل أحد من النساء القبر، كذا في محيط السرخسي". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012201952
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن