بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

”مجھے میری بیوی طلاق ہوگی اگر میں نے اس کو ٹیلیفون کیا ہو“ جملہ کہنا


سوال

1- زید اپنی بھابھی سے فون پر بات کررہا تھا، اس دوران بھابھی نے زید سے کہا کہ تم نے خالہ کے بیٹے کو  میرےاور اپنے بھائی کے خلاف  باتیں کی ہیں، اس پر زید جواب دیتا ہے کہ میں نے تمہارے خالہ زاد بھائی کو اس کے شادی کے بعد ٹیلیفون کیا ہی نہیں، حال آں کہ زید کو پتا تھا کہ زید نے اس سے صرف ایک یا دوبار صرف  میسج کیاہے، ایک شادی کے موقع پر اور دوسرا میسج شادی کے کئی عرصہ بعد جس میں زید نے اپنے خالہ زاد کو کہا کہ میرا بھائی اندھاہے جو گھر خریدنے کے معاملے کو صحیح نہیں دیکھ سکا۔ بھابی پھر بھی یقین نہیں کر رہی تھی تو  زید نے کہا: مجھے میری بیوی طلاق ہوگی اگر میں نے اس کو ٹیلیفون کیا ہو، اور تمہارے خلاف بات کی ہو، حال آں کہ زید کو پتا تھا کہ میں نے میسج کیا ہے اور اس کی نیت اور  مقصد  یہاں پرٹیلیفون ہی کا تھا، کیا اس نے جو طلاق بولا ہے یہ طلاق واقع ہوئی  یا نہیں؟

2-  زید عمر کے ساتھ لڑائی کرتاہے اور بطورِ  گالی اس کو کہتاہے کہ میں نے تمہاری بہن سے زنا کیا ہے، اب زید کا دوسرادوست بکر جوکہ عمر  کی بہن کو اچھی طریقے سے جانتا ہے، اور اس کویقین ہے کہ عمر  کی بہن کبھی ایسی حرکت نہیں کر سکتی اور زید بکواس کر کے جھوٹ بول رہاہے، اب بکر کہتا ہے کہ اگر اس نے زنا کیا تو مجھے بیوی طلاق ہوگی، کئی عرصے کے بعد بکر زید سے ملاقات کرتاہے اور کہتا ہے کہ واقعی تم قسم اورطلاق کرنے کے لیے تیار ہوکہ تم نے عمر کی بہن سے زنا کیا ؟ وہ انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے میری بیوی میری ماں ہوگی اور مجھے طلاق ہوگی اگر میں نے عمر کی بہن کے ساتھ زنا کیا ہو، تو اس صورت میں بکر نے جو الفاظ استعمال کیے تھے:  ’’یعنی میری بیوی طلاق ہوگی اگر اس نے زنا کیا ہو‘‘،  اب زید قرآن اٹھانے اور طلاق کے لیے بھی تیار ہے کہ میں نے زنا نہیں کیا ۔ تو جو الفاظ بکر نے استعمال کیے تھے کیا اسے طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں  ذکر کردہ تفصیل کے مطابق  زید کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی، دونوں کا نکاح بدستور برقرار ہے۔

2۔۔ اس صورت میں بھی  بکر کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور نہ ہی زید کی بیوی پر کوئی طلاق واقع ہوئی ہے۔

باقی  گالم گلوچ، الزام تراشی شرعاً ناجائز اور گناہ ہیں، نیز بات بات پر قسم کھانا اور طلاق کا ذکر کرنا بھی درست نہیں ہے، اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200145

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں