بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مجبور کی طلاق کا حکم


سوال

مجبور کی طلاق کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

سائل کے سوال میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ مجبور سے اس کی مرادکیا ہے؟ بہر حال اصولی جواب یہ ہے کہ اگر جبر سے مراد  صرف اصرار ، اخلاقی دباؤ، ترکِ تعلق کی دھمکی ،گالم گلوچ وغیرہ ہے، یعنی کوئی ایسی صورت ہے جس میں جان سے مارنا،یا اعضاء کے تلف کی کوئی صورت نہ ہو تو ایسا شخص شرعاً مجبور شمار نہیں ہوتا، لہٰذا ایسا شخص قولًایا تحریراً  طلاق دے دے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

اور اگر مجبور سے مراد ایسا شخص ہے جسے طلاق نہ دینے کی صورت میں جان سے مارنے کی، یا کسی عضو کے ضائع کرنے کی دھمکی دی گئی ہو اور دھمکی دینے والے موقع پراپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے پر قادر بھی ہوں،تو ایسی صورتِ حال میں اگر یہ مجبور( مکرہ) شخص تحریری طلاق دے دے اور زبان سے بالکل ادائیگی نہ کرے تو  اس کی تحریر کا اعتبار نہیں ہوگا یعنی طلاق واقع نہیں ہوگی، لیکن اگر اس صورتِ حال میں اس نے زبانی طلاق دے دی تو یہ طلاق واقع ہوجائے گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"( وأما ) ( أنواعه ) فالإكراه في أصله على نوعين إما إن كان ملجئا أو غير ملجئ فالإكراه الملجئ هو الإكراه بوعيد تلف النفس أو بوعيد تلف عضو من الأعضاء والإكراه الذي هو غير ملجئ هو الإكراه بالحبس والتقييد" .(35/5)

فتاوی شامی میں ہے:

وفي البحر: أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لاتطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا، كذا في الخانية". (236/3ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں