بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متفرق طور پر تین طلاقیں دینا


سوال

یہ تقریبا 2005 کی بات ہے ۔ میری اہلیہ جب بھی اپنے والدین کے گھر سے واپس آتی تو کوئی نہ کوئی بات ہو جاتی اور ہمارا آپس میں جھگڑا ہو جایا کرتا، چنانچہ ایک روز جب وہ اپنے والدین کے گھر سے واپس آئیں تو جھگڑا ہوا اور اس جھگڑے کے بعد میں نے اہلیہ سے کہا " اگر اب آئندہ تم اپنے والدین کے گھر گئیں تو تمھیں طلاقـــــــ یا یہ کہا " اگر اب آئندہ تم اپنے والدین کے گھر گئی تو میں تمھیں طلاق دے دوں گا" چونکہ قصّہ بہت زیادہ پرانا ہے اس لئے نہ مجھے اور نہ ہی میری اہلیہ کو ٹھیک طور سے الفاظ یاد ہیں۔ بہت زیادہ سوچ و بچار کے بعد اہلیہ کا غالب گمان یہ ہے کہ میں نے یہ الفاظ کہے تھے" اگر تم اپنے والدین کے گھر گئی تو میں تمھیں طلاق دے دوں گا"۔ البتّہ مجھے کچھ یاد نہیں آ رہا کہ وہ الفاظ کیا تھے۔ اس کے بعد اگلے دن میرے سسر صاحب نے مجھ سے فون پر میری اہلیہ کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے جانے کی اجازت مانگی اور میں نے جانے کی اجازت دے دی، اور اہلیہ نے بھی جانے کے لئے میری اجازت حاصل کرنے کی غرض سے مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر رابطہ نہ ہو سکا اور وہ میری والدہ صاحبہ سے پوچھ کر اپنے والد صاحب کے ہمراہ ان کے (یعنی اپنے والدین کے) گھر چلی گئی۔ ایک آدھ دن بعد اہلیہ میرے گھر واپس آ گئی اوہ ہم ساتھ رہنے لگے۔ پھر تقریبا تین ماہ بعد جھگڑے کے نتیجے میں—میں نے ایک ہی نشست میں دو طلاقیں دے دیں، طلاق کے الفاظ یہ تھے \\"(اہلیہ کا نام لے کر کہا) کہ شمائلہ میں نے تمھیں طلاق دی۔ شمائلہ میں نے تمھیں طلاق دی۔\\" اس کے بعد اہلیہ اپنے والدین کے گھر چلی گئی اور ایک ہی ہفتہ کے دوران دونوں خاندانوں کے بڑوں کی کوشش سے صلح صفائی ہو گئی اور ہمارا دوبارہ نکاح کرایا گیا اور ہم پھر سے ساتھ رہنے لگے۔ اس کے بعد تقریبا دس سال کا عرصہ گزرا، اس روران ہمارا ایک بیٹا بھی ہوا۔ اب دس سال بعد 2015 میں کچھ ہی دن پہلے ہمارا دوبارہ جھگڑا ہوا اور میں نے اپنی اہلیہ کو کہا " میں نے تمھیں طلاق دی " اس کے بعد میں نے پھر اہلیہ سے رجوع بھی کر لیا۔  آپ جناب سے پوچھنا یہ ہے کہ (1) 2005 میں جو الفاظ میں نے کہے--- کیا ان سے طلاق واقع ہو گئی؟ اگر ہاں--- تو وہ طلاق رجعی تھی یا طلاق بائن؟ (2) ایک ہی نشست میں دی گئی دو طلاقیں کیا دو ہی شمار کی جائیں گی یا پھر ایک؟ (3) دو طلاقوں کے بعد جو ہمارا دوبارہ نکاح ہوا کیا وہ درست تھا؟ (4) کیا اس نکاح کی وجہ سے 2005 والی ایک اور اس کے بعد والی دو طلاقیں کالعدم سمجھی جائیں گی یا برقرار رہیں گی؟ (5) اب 2015 میں دی گئی طلاق کون سی شمار ہو گی؟ پہلی، دوسری یا تیسری؟ (6) اب ہمارے لئے شریعتِ مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ میرے بچے بھی ہیں جن کی دیکھ بھال ہم دونوں مل کر ہی درست طریقہ سے کر سکتے ہیں، ہمارے لئے جو بھی گنجائش ہو ضرور ذکر فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگرسب سے پہلے طلاق کے استعمال کیے گئے الفاظ غالب گمان کے مطابق یہ تھے کہ  " اگر اب آئندہ تم اپنے والدین کے گھر گئی تو میں تمھیں طلاق دے دوں گا"تویہ الفاظ وعدہ طلاق ہیں ،طلاق دینے کامستقبل میں وعدہ اوردھمکی ہے،اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔البتہ جب آپ نے دومرتبہ یہ الفاظ اداکیے کہ'' شمائلہ میں نے تمھیں طلاق دی''ان الفاظ سے دوطلاق رجعی واقع ہوچکی تھیں،ایک ہی نشست میں دی گئی دوطلاقیں ہوں یادوسے زائدشرعاًواقع ہوجاتی ہیں۔ اس کے ایک ہفتہ بعد جونکاح کیاگیاوہ درست تھا۔اگرچہ طلاق رجعی کے بعدصرف زبان سے یاعملی طورپررجوع بھی کافی ہے نکاح جدید کی ضرورت عدت کے دوران نہیں ہوتی۔نکاح کی صورت میں جورجوع کیاگیااس کے بعدآپ کوصرف ایک طلاق کااختیارحاصل تھا۔پھرجب آپ نے دس سال بعد 2015 میں تیسری مرتبہ یہ الفاظ استعمال کیے کہ'' میں نے تمھیں طلاق دی "توتیسری طلاق بھی واقع ہوچکی ہے۔تین طلاقیں مغلظہ کہلاتی ہیں اورتین طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں رہتی ،اس لیے اس تیسری طلاق کے بعد کیاگیارجوع درست نہیں ہے۔آپ دونوں کانکاح ختم ہوچکاہے اورباہمی رشتہ منقطع ہوچکاہے۔اب اکھٹے رہناشرعاً حرام ہے ۔فی الفورجداہوناضروری ہے۔تین طلاق کی صورت میں عدت گزرنے کے بعدجب تک مطلقہ عورت کسی دوسرے شخص سے شادی کرکے  ازدواجی تعلق قائم نہ ہوں اور اس کے بعداپنی مرضی سے وہ  طلاق  نہ دے اس وقت تک عورت سابقہ شوہرکے لیے حلال نہیں ہوتی ۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143611200022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں