بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سنتوں کی پہلی رکعت میں سورۂ ناس پڑھ لی / دو رکعتوں میں ایک چھوٹی سورت پڑھنا / بچوں کو ڈانٹنے کی وجہ سے ان کا مدرسہ چھوڑدینا


سوال

1: چار  رکعت نماز سنت  میں اگر میں نے بھول کر پہلی رکعت میں سورة الناس پڑھ لی تو باقی کی تین رکعت میں کیا پڑھوں گا؟

 2:فرض کی دو رکعتوں میں سورة الناس پڑھ سکتے ہیں یا نہیں یعنی 3 آیات رکعت میں اور 3 آیات دوسری رکعت میں؟

 3:میں ایک مدرسہ میں بچوں کو پڑھاتا ہوں ،بچے یہاں پر انگریزوں والے بال کٹواکر آتے ہیں اور اگر ہم بچوں کو بولتے ہیں کہ بال سنت کے مطابق بال کٹواکر آؤ تو بچوں کے والدین دھمکی دیتے ہیں کہ اگر آپ لوگوں نے بچوں کو بال کٹوانے کا بولا تو ہم بچوں کو نکال لیں گے، اگر بچے بال کی وجہ سے نکل جاتے ہیں تو کیا اس بارے میں ہم سے سوال ہوگا یا نہیں؟

 4:میں جس جگہ مؤذنی کرتا ہوں،  ہمارے امام صاحب فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں کرتے، ان سے پوچھو تو بولتے ہیں فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا ثابت نہیں ہے۔

جواب

1۔ اگر چار رکعت والی سنت یا نفل کی پہلی رکعت میں سورۂ الناس پڑھ لی تو باقی تین رکعتوں میں کسی بھی جگہ سے پڑھا جاسکتا ہے،  قرآن کی ترتیب کا خیال رکھنا صرف فرائض میں ضروری ہے ،سنن ونوافل میں نہیں۔ البتہ افضل یہ ہے کہ پہلی رکعت میں بھول کر سورۃ الناس پڑھ لی ہو تو بقیہ تمام رکعتوں میں سورۃ الناس ہی پڑھ  لینی چاہیے۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار  (1/ 546.547):

"و أن يقرأ منكوساً ... و لايكره في النفل شيء من ذلك".

الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 58):

"وإذا قرأ في الأولى ﴿قل أعوذ برب الناس﴾ يقرأ في الثانية ﴿قل أعوذ برب الناس﴾ أيضاً".

2. اگر کوئی شخص سورۃ الناس کی تین آیتیں پہلی رکعت میں پڑھتا ہے اور بقیہ تین آیتیں دوسری رکعت میں پڑھتا ہے تو ایسا کرنے کی گنجائش ہے، اتنی مقدار پڑھ لینے سے نماز ہو جائے گی، ، تاہم بہتر یہ ہے کہ ایک رکعت میں مکمل سورت پڑھی جائے۔

الفتاوى الهندية (1/ 69):

"(ومنها القراءة) وفرضها عند أبي حنيفة - رحمه الله - يتأدى بآية واحدة وإن كانت قصيرةً. كذا في المحيط. وفي الخلاصة: وهو الأصح. كذا في التتارخانية. والمكتفي بها مسيء، كذا في الوقاية. ثم عنده إذا قرأ آيةً قصيرةً هي كلمات أو كلمتان نحو قوله تعالى : ﴿ثم قتل كيف قدر﴾ [المدثر: 20] ﴿ثم نظر﴾ [المدثر: 21] يجوز بلا خلاف بين المشايخ".

الفتاوى الهندية (3/ 81):

"وَلَوْ قَرَأَ بَعْضَ السُّورَةِ فِي رَكْعَةٍ وَالْبَعْضَ فِي رَكْعَةٍ قِيلَ: يُكْرَهُ، وَقِيلَ: لَا يُكْرَهُ، وَهُوَ الصَّحِيحُ .كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ. وَلَكِنْ لَا يَنْبَغِي أَنْ يَفْعَلَ، وَلَوْ فَعَلَ لَا بَأْسَ بِهِ .كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ. وَلَوْ قَرَأَ بَعْضَ السُّورَةِ فِي رَكْعَةٍ وَالْبَعْضَ فِي رَكْعَةٍ قالوا: یکره؛ لأنه خلاف ما جاء به الأثر، وفي الغیاثیة: وکأنهم أرادوا بذلک سورةً قصیرةً،م: روي عن أصحابنا: أنه لا یکره، وفي الظهیریة : هو الصحیح، وفي الخلاصة: لا یکره، ولکن لا ینبغي أن یفعل".

( الفتاوی التاتارخانیة 451/1، إدارة القرآن)

3۔ غیروں کے طریقوں سے جس طرح خود بچنا ضروری ہے، اسی طرح اس سے اپنے معاشرے  کے افراد خصوصاً  زیرِ تربیت بچوں کو بچانا اور اس سے دور رکھنا ضروری ہے، بچوں کی تربیت میں یہ  بھی داخل ہے کہ انہیں غیروں کی وضع قطع کے مفاسد اور اور شریعت میں ان کی ناپسندیدگی بتانے کے ساتھ ساتھ اسلامی وضع قطع کی اہمیت اور فضیلت بتائی جائے، اس کے لیے نرمی اور حکمت کا پہلو اختیار کیا جائے تو امید ہے کہ بچے ترغیب سے مان جائیں گے، اس کے باوجود نہ مانیں اور  بچوں پر سختی کرنے سے ان کے چھوڑ کر جانے کا خطرہ ہوتو  ان کے سرپرستوں کو بلا کر انہیں  سمجھایا جائے اور مسئلہ سے آگاہ کیا جائے ۔ بہرحال ایسا طریقہ کار ہرگز اختیار نہ کریں جس سے بچے تعلیم ہی چھوڑدیں، البتہ حکمت اور تدبیر سے اصلاح کی کوشش ضرور جاری رکھیں۔تاہم اگر  حکمت و نرمی سے سمجھانے کے باوجود   بچے مدرسہ سے نکل جاتے ہیں تو اس کا گناہ آپ پر نہیں۔

4۔ فرض نماز کے بعد دعا کرنا ثابت ہے اور  فرض نمازوں کے بعد کے اوقات حدیث شریف کے مطابق قبولیتِ دعاکے اوقات ہیں،  فرائض کے بعددعاکرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورسلف صالحین سے ثابت ہےاور دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے  اور آں حضرت ﷺ سے بھی  دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔

'المعجم الکبیر ' میں  علامہ طبرانی رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی سے ایک روایت ذکر کی ہے کہ  محمد بن یحیی اسلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن  زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا  ،انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ  وہ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی ہاتھ اٹھا کر دعا کررہا تھا ، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو  حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب تک نماز سے فارغ نہ ہوتے  اس وقت تک (دعا کے لیے) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ( لہذا تم بھی ایسا ہی کرو)۔

''حدثنا محمد بن أبي يحيى، قال: رأيت عبد الله بن الزبير ورأى رجلاً رافعاً يديه بدعوات قبل أن يفرغ من صلاته، فلما فرغ منها، قال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتى يفرغ من صلاته»۔''

(المعجم الكبير للطبرانی 13/ 129، برقم: 324)

 اسی طرح ' کنزالعمال' میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوبندہ نمازکے بعدہاتھ اٹھاکراللہ تعالیٰ سے دعاکرتاہے اورکہتاہے کہ اے میرے معبود ...اللہ تعالیٰ اس کی دعا کوضرورقبول فرماتے ہیں ،اسے خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتے۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارا رب حیا والا اور کریم ہے، اپنے بندے سے حیا کرتاہے ،جب وہ اپنے ہاتھوں  کو اس کے سامنے اٹھاتا ہے کہ ان کو خالی واپس لوٹا دے ۔

حضرت مالک بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول  اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم اللہ سے دعا کرو تو ہاتھوں  کی ہتھیلیوں  سے کرو، ہاتھوں  کی پشت سے نہ کرو ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں  ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں  سے سوال کیا کرو اور ہاتھوں  کی پشت سے نہ کرو ،پس جب دعا سے فارغ ہوجاؤ تو  ہاتھوں  کو اپنے چہرے پر پھیر لو۔

دعا میں  ہاتھ اٹھانا حضور ﷺکی عادتِ شریفہ تھی ، حضرت سائب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺجب دعا فرماتے تھے تو اپنے دونوں  ہاتھ مبارک اٹھاتے اور فارغ ہوتے تو ان دونوں  کو اپنے چہرے پر پھیرتے۔

اس طرح کی روایات فرض نمازوں کے بعدہاتھ اٹھاکراجتماعی دعاکے ثبوت واستحباب کے لیے کافی ہیں ؛ اس لیے نماز کے بعد دعاپر نکیر کرنا یا اسے بدعت کہنا درست نہیں۔ تاہم اسے سنتِ مستمرہ دائمہ کہنا مشکل ہے،اس بنا پراس کو ضروری اورلازم سمجھ کرکرنا،اورنہ کرنے والوں پرطعن وتشنیع کرنا بھی درست نہیں۔ اور یہ دعا سر اً افضل ہے، البتہ تعلیم کی غرض سے  کبھی کبھار امام  جہراً بھی دعا کرا سکتا ہے۔

حضرت علامہ محمدانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے  "فیض الباری"  میں اور محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نوراللہ مرقدہ نے اپنے فتاویٰ میں لکھاہے کہ فرائض کے بعد موجودہ ہیئت کے مطابق اجتماعی دعا کرنا سنتِ مستمرہ تو نہیں ہے، لیکن اس کی اصل ثابت ہے ؛ اس لیے یہ بدعت  نہیں ہے، اسے بدعت کہنا غلو ہے۔

مزید دلائل کے لیے ”النفائس المرغوبة في الدعاء بعد المکتوبة“ مؤلفہ حضرت مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کا مطالعہ فرمائیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200081

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں