بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متعہ کی حرمت


سوال

کیا متعہ  رسول اللہﷺْ کی حیاتِ طیبہ میں حرام قرار دیا گیا تھا ؟بعض لوگ اس کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جانب کرتے ہیں ۔

جواب

نکاحِ متعہ خود رسولِ کریمﷺنے اپنی حیاتِ مبارکہ میں حرام قرار دے دیا تھا، اس بارے میں’’مسلم شریف‘‘  کی ایک روایت وضاحت کے لیے کافی ہے:

حضرت سبرہ بن معبد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (ایک موقع پر) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! میں نے تم کو عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور (اب) اللہ نے اس کو  قیامت کے دن تک کے لیے حرام کر دیا ہے؛ لہٰذا جس کے پاس متعہ کرنے والیوں میں سے کوئی عورت ہو، وہ اس کو چھوڑ دے اور جو کچھ مال ان کو دیا ہو، اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لے۔

"عن  الربيع بن سبرة الجهني، أن أباه، حدثه، أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «يا أيها الناس، إني قد كنت أذنت لكم في الاستمتاع من النساء، وإن الله قد حرم ذلك إلى يوم القيامة، فمن كان عنده منهن شيء فليخل سبيله، ولاتأخذوا مما آتيتموهن شيئاً". (الصحیح لمسلم، کتاب النکاح، باب نكاح المتعة، وبيان أنه أبيح، ثم نسخ، ثم أبيح، ثم نسخ، واستقر تحريمه إلى يوم القيامة (2/1025) ط: دار إحياء التراث العربي – بيروت)

 یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود متعہ کی اجازت دی تھی اور پھر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرمت بیان فرما دی اور اب متعہ قیامت کے دن تک کے لیے حرام کر دیا گیا۔

مسلم شریف کی دوسری روایت میں ہے:

"حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سَبْرَةَ الْجُهَنِيُّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَی عَنْ الْمُتْعَةِ، وَقَالَ: أَلَا إِنَّهَا حَرَامٌ مِنْ يَوْمِکُمْ هَذَا إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ کَانَ أَعْطَی شَيْئًا فَلَايَأْخُذْهُ".

ترجمہ : حضرت ربیع بن سبرہ جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح متعہ سے ممانعت فرمائی اور فرمایا: آگاہ رہو!  یہ آج کے دن سے قیامت کے دن تک حرام ہے اور جس نے کوئی چیز دی ہو تو اسے واپس نہ لے۔

متعہ کے حرام کرنے کی نسبت حضرت عمررضی اللہ عنہ کی جانب کرنا غلط ہے، جو چیز رسول اللہ ﷺ نے حرام نہیں کی، اسے کوئی بھی صحابی رضی اللہ عنہ اپنی طرف سے حرام نہیں قرار دے سکتے، اگر صحابی کسی چیز کی حرمت کی خبر دیں تو وہ رسول اللہ ﷺ سے ہی سنی ہوئی بات اُمت تک پہنچاتے ہیں۔ لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی متعہ کو حرام قرار نہیں دیا، خدا اور اس کے پیغمبر ﷺ کے علاوہ کسی کو کسی چیز کے از خود حرام کرنے کا اختیار کہاں!  ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جس طرح دوسرے اسلامی اَحکام کے اِبلاغ و اشاعت اور  تنفیذ  میں سعی بلیغ فرمائی، اسی طرح انہوں نے متعہ کی حرمت کے اعلان میں بھی بڑی شدومد کے ساتھ کوشش کی ہے۔ چناں چہ ان کا آخری اعلان یہ تھا کہ اگر میں نے سنا کہ کسی نے متعہ کیا ہے تو میں اس کو زنا کی سزا دوں گا۔ ان کے اس اعلان کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ اس وقت کی متعہ کی حرمت سے ناواقف تھے وہ بھی واقف ہوگئے؛  لہذا حضرت عمررضی اللہ عنہ  نے تو صرف اتنا کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کی تبلیغ کردی۔ (ماخوذ از مظاہر حق)

متعہ کی حلت وحرمت سے متعلق تفصیلی اور تسلی بخش کلام مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ نے اپنی تفسیرمعارف القرآن میں   سورۂ نساء کی آیت کریمہ {فما استمتعتم به منهن فاٰتوهن اجورهن فریضة}کے تحت کیا ہے وہاں تفصیل ملاحظہ کرسکتے ہیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200540

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں