بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

متروکہ گاؤں میں اتمام


سوال

 میں اسلام آباد میں مستقل رہتا ہوں، میرا اپنا گھر ہے اور عرصہ 12 سال سے یہیں مقیم ہوں بمعہ اہل و عیال کے، لیکن ضلع مانسہرہ میں میری زمین بھی ہے اور مکان بھی ہے اور ہمارا قبرستان بھی وہیں ہے، لیکن رہائش اسلام آباد میں ہے، اب میں کبھی کبھار جب مانسہرہ جاتا ہوں والد صاحب حیات ہیں ان کی زیارت کے لیے یا میرا سسرال بھی وہیں ہے  تو میں تین چار دن میں واپس آ جاتا ہوں تواس صورت میں نماز قصر پڑھوں یا اتمام کروں؟ 

جواب

فقہاء  نے وطنِ اصلی کی تعریف یہ  کی ہے کہ انسان کی جائے ولادت یا جہاں اس نے شادی کرکے رہنے کی نیت کرلی یا کسی جگہ مستقل رہنے کی نیت کرلی تو یہ جگہ وطنِ اصلی بن جاتی ہے، اس تعریف کی رو سےاگر کسی شخص کی دو یا دوسے زیادہ جگہوں پر عمر گزارنے   کی نیت ہو کہ کبھی ایک جگہ کبھی دوسری جگہ لیکن ان سے مستقل کوچ نہیں کرتا تو یہ ساری جگہیں اس کے لیے وطنِ  اصلی ہی کے حکم میں ہوں گی۔

لہذا اگر آپ نے اپنے آبائی گاؤں میں رہنے کی نیت ترک نہیں کی اور مستقل گاؤں کو نہیں چھوڑا  تو دونوں جگہ آپ کو اتمام کرنا ہوگا خواہ آپ پندرہ دن سے کم کے لیے  ہی جائیں۔لیکن اگر صرف زمین اور رشتےدار ہیں  اور آپ وہ علاقہ چھوڑ چکے ہیں تو آپ وہاں پندرہ دن سے کم قیام کی صورت میں  قصر کریں گے۔

"الوطن الأصلي یبطل بمثله لابغیر، ویبطل وطن الإقامة بمثله، وبالوطن الأصلي وبإنشاء السفر". (در مختار علی ردالمحتار:۱/ ۵۳۲)

” و یبطل وطن الإقامة بمثله وبالوطن الأصلي وبإنشاء السفر، والأصل أن الشيء یبطل بمثله وبما فوقه لا بما دونه". (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر ۲: ۶۱۴، ۶۱۵)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200209

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں