بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مبیع اور ثمن کی تعیین


سوال

کیا خریدو فروخت کرتے وقت مال اور قیمت کے بارے میں بحث کرنے کی کوئی حدیث ہے؟

جواب

اگر سوال کا مقصد یہ ہے کہ  خرید وفروخت کرتے وقت مال اور قیمت کے تعین کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ  احادیث کی روشنی میں خرید وفروخت کے لیے  کچھ اصول معلوم ہوتے ہیں، مثلاً:  بیع کے صحیح ہونے کے لیے مبیع(مال) اور ثمن(قیمت) کا اس قدرمعلوم ہونا ضروری ہے کہ بعد میں کسی قسم کا نزاع  نہ ہو ، اس لیے اگر مبیع مجہول ہوگی تو اس میں دھوکا دہی کا احتمال ہے، اور دھوکا دینے سے احادیث میں منع کیا گیا ہے، اور دوسرا یہ کہ اس کے معلوم نہ ہونے سے بعد میں جھگڑا ہوگا، اور اور جھگڑے کی وجہ سے فروخت کرنے والا سامان حوالہ نہیں کرے گا، اور بیچنے والا قیمت حوالہ نہیں کرے، اس سے بیع کا مقصد فوت ہوجائے گا، جب کہ خریدوفروخت لوگوں کی حاجت پوری ہونے کا سبب ہے اور جھگڑا اور تنازع اس کے منافی ہے، نیز  بیع کی بنیاد ہی باہمی رضامندی پر ہے، اور خریدار اور فروخت کرنے والے کی رضامندی کسی معلوم اور متعین چیز سے تو معلوم ہوسکتی ہے، مجہول چیز میں رضامندی معلوم نہیں ہوسکتی، تو شریعت کے ان قواعد اور احادیث کے ذخیرہ کی روشنی میں  فقہاء نے خریدوفروخت کی مختلف شرائط ذکر کی ہیں، جن میں من جملہ یہ بھی ہیں کہ مبیع معلوم ہو، ثمن معلوم ہو، مبیع اور ثمن مال ہو، متقوم ہو وغیرہ اور مبیع موجود ہو، ملکیت میں ہو، اس کی حوالگی پر قادر ہو وٖغیرہ۔

نیز   حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں: نبی ﷺ مدینہ (منورہ) تشریف لائے تو وہاں کے لوگ پھلوں میں "بیعِ سلم" ایک ایک دو دو سال کی مدت کے لیے کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی کھجور میں "بیعِ سلم" کرے تو وہ متعین پیمائش میں اور متعین وزن میں متعین وقت تک کے لیے کرے۔ مدت متعین ہونی چاہیے، ایسی نہیں جو آگے پیچھے ہو سکے۔

"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَدِمَ النَّبِیُّ ﷺ الْمَدِیْنَة وَهُمْ یُسْلِفُوْنَ فِي الثِّمَارِ السَّنَة وَالسَّنَتَیْنِ، فَقَالَ: مَنْ أَسْلَفَ فِيْ تَمْرٍ فَلْیُسْلِفْ فِيْ کَیْلٍ مَعْلُوْمٍ وَ وَزْنٍ مَعْلُوْمٍ إِلٰی أَجَلِ مَعْلُوْمٍ". (مسلم)   

 حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ تعالٰ عنہ فرماتے ہیں : وہ غلہ جس کا وصف مذکور ہو اور جس کی قیمت متعین ہو اور اس کے لیے مدت متعین ہو اس میں بیعِ سلم کرنے میں کچھ حرج نہیں ۔

"عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لَا بَأسَ فِي الطَّعَامِ الْمَوْصُوْفِ بِسِعْرٍ مَعْلُوْمٍ إِلٰی أَجَلٍ مَعْلُوْمٍ". (بخاری)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 156):
"(ومنها) أن يكون المبيع معلوماً وثمنه معلوماً علماً يمنع من المنازعة.
فإن كان أحدهما مجهولاً جهالةً مفضيةً إلى المنازعة فسد البيع، وإن كان مجهولاً جهالةً لا تفضي إلى المنازعة لا يفسد؛ لأن الجهالة إذا كانت مفضيةً إلى المنازعة كانت مانعةً من التسليم والتسلم، فلايحصل مقصود البيع، وإذا لم تكن مفضيةً إلى المنازعة لا تمنع من ذلك؛ فيحصل المقصود وبيانه في مسائل: إذا قال: بعتك شاةً من هذا القطيع أو ثوباً من هذا العدل فالبيع فاسد؛ لأن الشاة من القطيع والثوب من العدل مجهول جهالةً مفضيةً إلى المنازعة لتفاحش التفاوت بين شاة وشاة، وثوب وثوب، فيوجب فساد البيع، فإن عين البائع شاةً أو ثوباً وسلمه إليه ورضي به جاز، ويكون ذلك ابتداء بيع بالمراضاة؛ ولأن البياعات للتوسل إلى استيفاء النفوس إلى انقضاء آجالها والتنازع يفضي إلى التفاني فيتناقض؛ ولأن الرضا شرط البيع والرضا لا يتعلق إلا بالمعلوم".

 اگر سوال کا مقصد کچھ اور ہے تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ سوال پوچھا جاسکتا ہے ۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200062

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں