بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مبتدع کی اقتدا کا حکم


سوال

مجھے یہ جاننا تھا کہ میں جس جگہ رہتاہوں وہاں اپنے مسلک دیوبند کی کوئی مسجد نہیں ہے،سب بریلوی مسلک کی مساجد ہیں،اور وہ سارے انتہائی درجے کے بدعتی ہیں،عام بریلویوں کی طرح نہیں ہیں،اور مجھے کسی عالم صاحب نے کہا تھا کہ آپ کی نماز ان کے پیچھے نہیں ہوتی،میں کافی مدت سے اپنے گھر میں نماز پڑھ رہاہوں ،مگر میرے دل کو سکون نہیں ملتا،اس صورتِ حال میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب

کسی بھی شخص  کی اقتدا میں نماز پڑھنے کے جوازاورعدمِ جواز کا تعلق اس شخص کے عقیدے اور نظریہ سے ہے ،لہٰذا اگر کسی شخص کا عقید ہ کفر کی حدتک نہ پہنچا ہو تو اس کی اقتدا میں نماز جائز ہوگی، البتہ عقیدہ حدکفر تک پہنچنے کی صورت میں اس کی اقتدا میں نماز نہیں ہوگی۔بریلوی حضرات کے بعض عقائد کی بنا پر ان کی گمراہی کا فتویٰ دیا گیا ہے، کفر کا نہیں۔لہذاگراتفاقاً ایسی نوبت آجائے کہ بریلوی مکتبہ فکر کے امام کی اقتدا میں نماز پڑھنی ہو تو جماعت ترک نہ کی جائے،جماعت کا ثواب مل جائے گا، لیکن مستقل ایسےامام کی اقتدا بدعتی ہونےکی وجہ سے مکروہ تحریمی ہے۔

آپ نے سوال میں صراحت کی ہے کہ آپ کے محلہ کے ائمہ غالی بدعتی ہیں، لہذا ان کی اقتدا کی بجائے  کسی صحیح العقیدہ نیک امام کی اقتدا میں نمازپڑھنےکا اہتمام کیا جائے،گھر کے قریب اگر کوئی ایسی مسجد موجود نہیں تو   دوسرے محلہ میں جہاں اہلِ حق کی مساجد موجود ہوں وہاں نماز پڑھنے کے لیے چلے جایاکریں اور کوئی صورت نہ ہوتو گھر میں باجماعت نماز کا اہتمام کرلیاکریں، اس سے جماعت کے ثواب سے محرومی نہ ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143906200109

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں