بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماں بیٹے کے درمیان مس سے حرمتِ مصاہرت کا حکم


سوال

ماں اور بیٹے کے درمیان مس بالشہوت بلا حائل کا واقعہ پیش آیا،  لیکن شوہر اس کی تصدیق نہیں کر رہا ہے، دریں صورت عدمِ ثبوتِ حرمت کے لیے  شوہر کی فقط عدمِ تصدیق کافی ہے یا عدمِ تصدیق مع الیمین ضروری ہے ؟ نیز اگر بیوی شوہر کے سامنے واقعہ بایں الفاظ بیان کرے کہ " میرے اور بیٹے کے درمیان مس بالشھوت کا واقعہ پیش آیا، اب اگر آپ میری تصدیق کرلیں گے تو میں آپ پر حرام ہو جاؤں گی، ورنہ کچھ نہ ہوگا " تو بیوی  کے لیے اس طرح کہنے  کی شرعاً گنجائش ہے یا نہیں؟

جواب

اگر بیٹے نے  ماں  کو  یا ماں نے بیٹے کو شہوت کے  ساتھ چھوا ہو  اور حرمتِ  مصاہرت کی تمام شرائط پائی جائیں تو اس سے  ماں اس لڑکے کے والد پر حرام ہوجائے گی۔البتہ حرمت کے لیے فقط بیٹے  یا ماں کا اقرار کافی نہیں ، جب تک والد (عورت کا شوہر)اس کی تصدیق  نہ کرے  یاگواہ موجود نہ ہوں۔اگر والد تصدیق نہیں کرتا تو اس کے حق میں حرمت ثابت نہ ہوگی، نیز عدمِ تصدیق کی صورت میں  چوں کہ کتبِ فقہ میں یمین کی قید نہیں ہے؛ اس لیے  عدمِ تصدیق کو یمین کے ساتھ مقید نہیں کیا جائے گا، البتہ یہ پہلو  مزید قابلِ تحقیق  ضرور ہے۔

 اگر والد کوغالب گمان یہ ہوکہ یہ واقعہ پیش آیاہے تو اس پرتصدیق  لازم ہے،محض رشتہ کو برقرار رکھنے کے لیے انکار کرے گا تو عنداللہ مجرم وگناہ گار ٹھہرے گا، نیز ساتھ  رہنا بھی شرعاً ناجائز وحرام ہوگا۔

اسی طرح عورت کا اپنے شوہر کو یہ کہنا جائز نہیں  ہے کہ  "اگر تصدیق کرلیں گے  تو میں آپ پر حرام ہوجاؤں گی ، ورنہ کچھ نہ ہوگا"  ، اگر حقیقتاً واقعہ پیش آیاہو تو حرمت سے بچنے کے لیے اس طرح باطل حیلے  کا سہارالینے سے بھی حرمت ،حلت میں تبدیل نہیں ہوگی۔اور اس حیلے کے سہارے ساتھ رہنا ناجائز وحرام ہی ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

'' وفي الخانية إن النظر إلى فرج ابنته بشهوة يوجب حرمة امرأته وكذا لو فزعت فدخلت فراش أبيها عريانة فانتشر لها أبوها تحرم عليه أمها ( وبنت ) سنها ( دون تسع ليست بمشتهاة ) به يفتى ( وإن ادعت الشهوة ) في تقبيله أو تقبيلها ابنه ( وأنكرها الرجل فهو مصدق ) لا هي ( إلا أن يقول إليها منتشرا ) آلته ( فيعانقها ) لقرينة كذبه أو يأخذ ثديها أو يركب معها أو يمسها على الفرج أو يقبلها على الفم''۔(3/37)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

'' رجل تزوج امرأة على أنها عذراء فلما أراد وقاعها وجدها قد افتضت فقال لها : من افتضك ؟ .فقالت : أبوك إن صدقها الزوج ؛ بانت منه ولا مهر لها وإن كذبها فهي امرأته ، كذا في الظهيرية .لو ادعت المرأة أن مس ابن الزوج إياها كان عن شهوة لم تصدق والقول قول ابن الزوج ، كذا في السراج الوهاج. رجل قبل امرأة أبيه بشهوة أو قبل الأب امرأة ابنه بشهوة وهي مكرهة وأنكر الزوج أن يكون بشهوة فالقول قول الزوج ، وإن صدقه الزوج وقعت الفرقة ويجب المهر على الزوج ويرجع بذلك على الذي فعل إن تعمد الفاعل الفساد ، وإن لم يتعمد ؛ لايرجع." (6/471)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200041

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں