بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مانعِ حمل تدبیر کرنا اور چار ماہ سے پہلے اسقاطِ حمل کا حکم


سوال

ایک عورت ہے جو پہلے سے پانچ بچوں کی ماں ہے اور سب سے چھوٹا بچہ اس سال رمضان میں پیدا ہوا ہے ۔  اب اس مہینے اس کو ماہ واری نہیں آئی جس کا مطلب کہ پھر سے بچہ ٹھہرنے کا امکان ہے، وہ عورت اب یہ کہتی ہے کہ پہلے پانچ بچے اور سب سے چھوٹا دو ماہ کا ہے، وہ عورت اپنے بچے کو توجہ نہ دے پاۓ گی۔کیا اس عذر کی بنا پر وہ ایسی دوا استعمال کر سکتی ہے جس سے حمل نہ ٹھہرے جب کہ حمل دو ماہ کا بھی نہیں ہوگا،  کسی طبی عذر  کی وجہ سےحمل میں روح پڑنے کے وقت سے پہلے جو کہ 4 ماہ ہے اسقاط حمل جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کثرتِ  اولاد ترغیباتِ شریعہ میں سے ہونے کے ساتھ ساتھ نکاح کے من جملہ مقاصد میں سے ایک اہم مقصد بھی ہے،  اس لیے بلاضرورت کوئی بھی ایسا ذریعہ استعمال کرنا جو مانعِ حمل ہو  پسندیدہ نہیں ہے، تاہم اگر بچے ابھی چھوٹے ہوں یا عورت کم زور ہو اور اس کی صحت حمل کی متحمل نہ ہو تو عارضی طور پر مانعِ حمل تدبیر کے اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔

البتہ اگر حمل ٹھہر جائے اور ماں کی جان کو  حمل سے  خطرہ  ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہو ، یا  حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے جس  سے پہلے بچہ کو نقصان ہو ، وغیرہ جیسے اعذار کی بنا پر  حمل  میں روح پڑجانے سے پہلے   پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    حمل  کو ساقط کرنے کی گنجائش ہے۔ مذکورہ اعذار میں سے کسی عذر کے پیشِ نظر اگر کوئی مسلمان دین دار (یعنی شریعت کے مطابق عمل کرنے والا) عورت کو اسقاط کا مشورہ دیتاہے تو گنجائش ہوگی۔

الدرالمختار مع الشامي، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیره، ، کراچی ۶/ ۴۲۹:
"العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه کالشعر والظفر ونحوهما لایجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز … امرأة مرضعة ظهربها حبل وانقطع لبنها، وتخاف علی ولدها الهلاک، ولیس لأبي هذا الولد سعة حتی یستأجر الظئر یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام نطفة أو مضغة أو علقة لم یخلق له عضو وخلقه لایستبین إلا بعد مائة وعشرین یوماً أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً، کذا في خزانة المفتیین، وهکذا في فتاوی قاضي خان". (هندیة، کتاب الکراهیة، الباب الثامن عشر: في التداوي والمعالجات وفیه العزل وإسقاط الولد، قدیم زکریا دیوبند ۵/ ۳۵۶، جدید زکریا دیوبند ۵/ ۴۱۱-۴۱۲)
الموسوعة الفقهیة الکویتیة (۳۰/ ۲۸۵):

"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200115

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں