بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مالکِ مکان اور کرایہ دار کے ذمہ امور


سوال

کرایہ دار اور مالک مکان کے ذمہ کیا امور ہیں؟

جواب

کرایہ داری کا معاہدہ جس میں کرایہ اور مدت باہمی رضامندی سے طے کرلی جاتی ہے، اس معاہدہ ہوجانے کے بعد  مالک مکان کے ذمہ یہ امور ہیں:

1- جس سامان کا معاہدہ میں ذکر نہ ہو، اس سے گھر کو خالی کرکے مقررہ وقت پر مکان کرایہ دار کے حوالے کرنا۔

2- ان تعمیرات کے اخراجات برداشت کرنا جن کا تعلق براہِ راست مکان سے ہو، اور اس کا فائدہ مالکِ مکان کو بھی ہو۔ مثلاً عمومی تعمیرات وغیرہ۔

 کرایہ دار کے ذمہ یہ امور ہیں :

1- گھر کو عرف اور عادت کے مطابق استعمال کرنا۔

2- گھر کے استعمال میں گھر کو کوئی ضرر پہونچنے کا اندیشہ ہو تو پہلے سے اس کی اجازت مالک مکان سے لینا۔

3- رہائش کی خاطر ہونے والے خرچے جن کا فائدہ کرایہ دار سے متعلق ہو، ان کے اخراجات برداشت کرنا، مثلاً:  باورچی خانے میں چولہے وغیرہ بنانا۔

4- معاہدے کے مطابق وقت مکمل ہونے پر اگر مالکِ مکان گھر خالی کرنے کا مطالبہ کرے تو وقت پر گھر خالی کرکے مالک کے حوالے کرنا۔

موجودہ زمانے میں گیس بجلی وغیرہ کے بل کے حوالے سے اگر باہم معاہدہ طے ہوجائے یا کسی جگہ کا عرف متعین ہو تو اس پر عمل کیا جائے، بصورتِ دیگر کرایہ دار جتنی بجلی اور گیس استعمال کرے گا اس کا بل اسے ادا کرنا ہوگا۔

مجلة الأحكام العدلية (1 / 98):

"من أجر داره أو حانوته وكانت فيه أمتعته وأشياؤه تصح الإجارة ويجبر على تخليته من أمتعته وأشيائه وتسليمه".

مجلة الأحكام العدلية (1 / 99):

"يصح استئجار الدار والحانوت بدون بيان كونه لأي شيء وأما كيفية استعماله فتصرف إلى العرف والعادة".

مجلة الأحكام العدلية (1 / 99):

"وله أن يعمل فيها كل عمل لايورث الوهن والضرر للبناء لكن ليس له أن يفعل ما يورث الضرر والوهن إلا بإذن صاحبها".

مجلة الأحكام العدلية (1 / 99):

"إعمال الأشياء التي تخل بالمنفعة المقصودة عائدة على الآجر: مثلاً تطهير الرحى على صاحبها، كذلك تعمير الدار وطرق الماء وإصلاح منافذه، وإنشاء الأشياء التي تخل بالسكنى وسائر الأمور التي تتعلق بالبناء كلها لازمة على صاحب الدار".

مجلة الأحكام العدلية (1 / 100):

"التعميرات التي أنشأها المستأجر بإذن الآجر إن كانت عائدةً لإصلاح المأجور وصيانته عن تطرق الخلل كتنظيم الكرميد (أي القرميد وهو نوع من الآجر يوضع على السطوح لحفظه من المطر) فالمستأجر يأخذ مصروفات هذه التعميرات من الآجر وإن لم يجر بينهما شرط على أخذه وإن كانت عائدةً لمنافع المستأجر فقط كتعمير المطابخ فليس للمستأجر أخذ مصروفاتها ما لم يذكر شرط أخذها بينهما". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں