بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مومن کی فراست سے ڈرو اس حدیث کی تحقیق


سوال

حدیث ’’مومن کی فراست سے ڈرو‘‘،  اس حدیث کی تحقیق مطلوب ہے!

جواب

’’مؤمن کی فراست سے ڈرو بے شک وہ اللہ کے نور سے دیکھتاہے‘‘ یہ حدیث امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’سنن الترمذی‘‘  میں نقل کرکے فرمایا ہے:’’ هذاحدیث غریب إنما نعرفه من هذا الوجه‘‘ یعنی یہ غریب حدیث ہے،  ہم تک صرف اسی سند کے ساتھ پہنچی ہے۔

اور اس سند کو محدثینِ  کرام نے بعض رواۃ  کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔   لیکن اسی روایت کو  ’’امام طبرانی‘‘ رحمہ اللہ  نے اپنی سند سے ذکر کیا ہے اور اس سند کوحسن قرار دیا گیا ہے۔ نیز اس روایت کو محدثین کے ہاں قبولیت حاصل ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو اپنی کتاب ’’التاریخ الکبیر‘‘  میں ذکر کیا ہے،  ان کے علاوہ بھی محدثین کی کثیر تعداد نے اس روایت کو نقل کیا ہے؛  لہذا یہ روایت  حسن درجہ کی ہے،  اسے نقل کرنا، بیان کرنا درست ہے ۔

سنن الترمذی میں ہے:(149/5ط:دارالغرب بیروت)

"حدثنا محمد بن إسماعيل ، قال : حدثنا أحمد بن أبي الطيب ، قال : حدثنا مصعب بن سلام ، عن عمرو بن قيس ، عن عطية ، عن أبي سعيد الخدري ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : اتقوا فراسة المؤمن فإنه ينظر بنور الله ، ثم قرأ : {إن في ذلك لآيات للمتوسمين}.
هذا حديث غريب ، إنما نعرفه من هذا الوجه".
جمع الجوامع
میں ہے:(813/1)

" اتقوا فِرَاسَة المؤمن فإنه ينظر بنور الله (البخارى فى تاريخه ، والترمذى - غريب - وابن السنى فى الطب ، وأبو نعيم فى الحلية عن أبى سعيد . الطبرانى ، والحكيم ، وسمويه ، وابن عدى ، والخطيب عن أبى أمامة . ابن جرير عن ابن عمر)
حديث أبى سعيد : أخرجه البخارى فى التاريخ الكبير (7/354) ، والترمذى (5/298 ، رقم 3127) ، وقال : حديث غريب . وأبو نعيم فى الحلية (10/281) . وأخرجه أيضًا : الطبرى (14/46) .
حديث أبى أمامة : أخرجه الطبرانى (8/102 رقم 7497) قال الهيثمى (10/268) : إسناده حسن . والحكيم (3/86) ، وابن عدى (4/206 ، ترجمة 1015 عبد الله بن صالح) ، والخطيب (5/99) . وأخرجه أيضًا : الطبرانى فى الأوسط (3/312 ، رقم 3254) ، والقضاعى (1/387 ، رقم 663) .
حديث ابن عمر : أخرجه الطبرى (14/46)
  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201056

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں