بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مؤذن کا امامت کی اجرت کا مطالبہ کرنا


سوال

میں ایک مسجد کا مؤذن ہوں، مجھے صرف اذان کے لیے ہی مقرر کیا ہے، مسجد کے امام صاحب اگر چار ماہ پر جائیں یا سال پر یا اگر امام چلا جائے تو دوسرا امام لانے تک مجھے ہی نماز پڑھانی پڑھتی ہے جو بسااوقات 3 سے 4 ماہ تک لگ جاتے ہیں، لیکن مجھے ان دنوں میں اپنا(مؤذن کا مقرر کردہ) وظیفہ دیا جاتاہے جو انتہائی کم ہے، مجھے پوچھنا یہ ہے کہ مجھے ان اوقات کا وظیفہ الگ سے لینے کا حق ہے؟ امام صاحب جب چلہ یا سال پر ہوں اس وقت کی تن خواہ لینا کیسا ہے، جب کہ نمازیں مجھے ہی پڑھانی پڑتی ہیں؟ ان حالات کی وجہ سے گناہ گار تو نہیں ہوں گا، اگر مؤذنی سے جانا پڑا؟ ان حالات میں کمیٹی حضرات اور امام صاحب کو کیا کرنا چاہیے؛ کیوں کہ مجھے ہی سب کچھ کرنا پڑتا ہے؟ شریعت کی نظر میں مجھے اس وقت کیا کرنا چاہیے؟ اگر بندہ نمازیں نہیں پڑھائے تو گناہ تو نہیں ملے گا ؟

نوٹ : بندہ کو نا امام سے نا کمیٹی سے اور نہ کسی اور سے شکوہ ہےاور نا ہی میں نے یہ فتوی مسجد میں مشہور کرنا ہے،  مجھے صرف مسئلہ معلوم کرنا ہے ۔

جواب

اگر آپ سے معاہدے میں یہ خدمت  طے ہوئی تھی کہ آپ اتنے لمبے عرصے میں بھی نماز پڑھائیں گے تو یہ آپ کے واجبات میں شامل ہے. اور اگر  یہ خدمت صراحت سے  طے نہ ہوئی تھی تو آپ اس خدمت کا معاوضہ مزید طلب کرسکتے ہیں،یہ آ پ کا حق ہے۔

اس کے لیےامامت نہ چھوڑیں ، کمیٹی والوں سے مناسب انداز میں مطالبہ کرلیں۔ البتہ آپ اس خدمت کے چھوڑنے پر گناہ گار نہ ہوں گے؛ اس لیے کہ اس مذکورہ صورت میں یہ طویل خدمت آپ کی ذمہ داری نہیں۔ نیز  جب آپ اس عرصہ کا مزید  مشاہرہ منظور کروالیں تو آپ مزید اضافے کے حق دار ہوں گے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 9):
"(و) يعلم النفع أيضاً ببيان (العمل كالصياغة والصبغ والخياطة)".

 حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الخَلَّالُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ العَقَدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ المُزَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ المُسْلِمِينَ، إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا، وَالمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ، إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا»: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. (جامع الترمذي)

"عن ابن الساعدي قال: استعملني عمر علی الصدقة فلما فرغت منها وأدیتها إلیه أمر لي بعمالةٍ، فقلت: إنما عملت للّٰه وأجري علی اللّٰه، قال: خذ ما أعطیتک فإني قد عملت علی عهد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم فعملني، فقلت مثل قولک، فقال لي رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: إذا أعطیت شیئًا من غیر أن تسأله فکل وتصدق". (سنن أبي داو‘د ، باب في الاستعفاف ۱/۲۳۳)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200072

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں