بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

لگے ہوئے روزگار کو کسی معقول وجہ کے بغیرتبدیل کرنے کے متعلق حدیث


سوال

لگی ہوئی روزی کو بلا وجہ چھوڑ دینے پر کوئی حدیث ہے تو بتادیجیے!

جواب

مسند احمد اور سنن ابن ماجہ میں ایک روایت ہے کہ حضرت نافع فرماتے ہیں: میں اپنا سامانِ تجارت شام اور کبھی مصر کی طرف بھیجا کرتا تھا، ایک مرتبہ میں نے عراق کی طرف تجارتی سامان بھجوانے کی تیاری کی، میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، اور انہیں صورتِ حال بتائی، اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایسا نہ کرو! تمہیں اور تمہاری جائے تجارت کو کیا ہوا؟ (یعنی کوئی نقصان ہوا؟ کوئی وجہ ہے جو تجارتی رخ تبدیل کررہے ہو؟) پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کے لیے کسی جگہ رزق کا سبب بنائے تو وہ اسے ترک نہ کرے  یہاں تک کہ اس میں خود تبدیلی نہ آجائے۔ (مثلاً: نقصان ہوجائے یا اس چیز کی تجارت ختم ہوجائے یا کوئی اور مسئلہ پیش آجائے)

لہٰذا اگر کسی شخص کی روزی یا تجارت کسی مناسب جگہ جاری وساری ہو تو کسی معتبر وجہ کے بغیر اسے نہیں چھوڑنا چاہیے، کیوں کہ اسے ترک کرنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لگی ہوئی روزی کو چھوڑنا اور دنیا زیادہ جمع کرنے کی لالچ پائی جاتی ہے، اس وجہ سے شرعاً پسندیدہ نہیں ہے۔ 

مشكاة المصابيح (2/ 848):

"وَعَنْ نَافِعٍ قَالَ: كُنْتُ أُجَهِّزُ إِلَى الشَّامِ وَإِلَى مِصْرَ فَجَهَّزْتُ إِلَى الْعِرَاقِ فَأَتَيْتُ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ فَقُلْتُ لَهَا: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ كُنْتُ أُجَهِّزُ إِلَى الشَّامِ فَجَهَّزْتُ إِلَى العراقِ، فقالتْ: لَا تفعلْ مالكَ وَلِمَتْجَرِكَ؟ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا سَبَّبَ اللَّهُ لِأَحَدِكُمْ رِزْقًا مِنْ وَجْهٍ فَلَا يَدَعْهُ حَتَّى يَتَغَيَّرَ لَهُ أَوْ يَتَنَكَّرَ لَهُ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 1905):

"2785 - (وعن نافع قال: كنت أجهز) : بتشديد الهاء أي أهيئ التجارة (إلى الشام) ، أي تارة (وإلى مصر) أخرى وما كنت أتعدى عنهما، وقال الطيبي - رحمه الله -: مفعوله محذوف، أي كنت أجهز وكلائي ببضاعتي ومتاعي إلى الشام وإلى مصر (فجهزت إلى العراق) ، أي مائلاً إلى سفره (فأتيت أم المؤمنين) : وفي نسخة: إلى أم المؤمنين (عائشة، فقلت لها: يا أم المؤمنين! كنت) : أي: قبل هذا (أجهز إلى الشام) : أي وإلى مصر، إنما اختصر للوضوح أو للدلالة على أن تجهيزه إلى مصر كان قليلاً نادراً (فجهزت إلى العراق) أي الآن (فقالت: لاتفعل!) أي هذا التجهيز والتبديل، فإن الله لايغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم، لا سيما والمسافة بعيدة وهي مشعرة إلى الحرص المذموم. (ما لك ولمتجرك؟) : اسم لمكان من التجارة، أي: أي شيء وقع لك وما حصل لمتجرك من الباعث على العدول منه إلى غيره؟ أوصل إليك خسران منه، حتى يصدك في محل تجارتك الذي عودك الله الربح فيه؟ وما هو كذلك لاينبغي العدول عنه، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إذا سبب الله لأحدكم رزقاً من وجه) : بأن جعل رزق أحدكم مسبباً عن وصول تجارته إلى محل مثلاً (فلايدعه) أي: لايترك ذلك السبب أو الرزق (حتى يتغير له) أي بعدم الربح (أو يتنكر له) : بخسران رأس المال، فأو للتنويع، وقيل: أو للشك، قال الطيبي - رحمه الله: وفيه أن من أصاب من أمر مباح خيراً وجب عليه ملازمته، ولايعدل منه إلى غيره إلا لصارف قوي؛ لأن كلاً ميسر لما خلق له (رواه أحمد وابن ماجه) ". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں