بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کی نام فرشتہ یا ملائکہ رکھنا


سوال

کیا لڑکی کی نام فرشتہ یا ملائکہ رکھواسکتے ہیں؟  ِاس کا کوئی  گناہ ہے؟ 

جواب

لفظ ’’ ملائکہ‘‘ جمع ہے لفظ ’’ ملک‘‘ کی اور اس کے معنیٰ ہیں فرشتے،  لڑکی کا نام ’’ملائکہ‘‘  یا ’’فرشتہ‘‘ رکھنا کئی  اعتبار سے غلط ہے:

1- ملائکہ کو اللہ تعالیٰ نے انہیں مؤنث نہیں بنایا، مشرکین انہیں بنات اللہ کہتے تھے، اللہ نے اس کی سختی سے تردید فرمائی ہے، معلوم ہواکہ ملائکہ مؤنث نہیں ہیں،  اس لیے کسی لڑکی کا نام ملائکہ یا فرشتوں کے نام پر رکھنا درست نہیں ہے۔

2- ملائکہ نام رکھنے میں ایک قسم کا عجب اور بڑائی پائی جاتی ہے، کیوں کہ فرشتے گناہوں سے پاک ہوتے ہیں، جب کہ انسان تو خطا کا پتلا ہے۔
3- بعض اہل علم سے فرشتوں کے ناموں پر نام رکھنے کی کراہت منقول ہے، جس کی وجہ ایک روایت میں اس کی ممانعت ہے، اگرچہ محدثین نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے، لیکن بعض فقہاءِ محدثین نے اسے قبول کرتے ہوئے ملائکہ کے نام پر نام رکھنے سے منع کیا ہے۔اور اکثر علماء کے نزدیک فرشتوں کے ناموں پر نام رکھنا تو درست ہے، لیکن اولاً ملائکہ میں سے کسی کے نام پر لڑکوں کا نام رکھنا درست ہے، ثانیاً اس میں بھی اس بات کاخدشہ ہے کہ لوگ مذاق نہ بنادیں؛ اس لیے اس سے گریز بہترہے۔

بہرحال  یہ نام رکھنے کے بجائے   آپ اپنی بچی کا نام صحابیات اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے ناموں میں سے کسی کے نام پر رکھیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 418):

" ولايسميه حكيماً، ولا أبا الحكم ولا أبا عيسى ولا عبد فلان ولايسميه بما فيه تزكية نحو الرشيد والأمين فصول العلامي. أي لأن الحكم من أسمائه تعالى فلايليق إضافة الأب إليه أو إلى عيسى.

أقول: ويؤخذ من قوله: ولا عبد فلان منع التسمية بعبد النبي، ونقل المناوي عن الدميري: أنه قيل بالجواز بقصد التشريف بالنسبة، والأكثر على المنع خشية اعتقاد حقيقة العبودية كما لايجوز عبد الدار اهـ. ومن قوله: ولا بما فيه تزكية المنع عن نحو محيي الدين وشمس الدين مع ما فيه من الكذب، وألف بعض المالكية في المنع منه مؤلفاً وصرح به القرطبي في شرح الأسماء الحسنى وأنشد بعضهم فقال:

أرى الدين يستحيي من الله أن يرى ... وهذا له فخر وذاك نصير

فقد كثرت في الدين ألقاب عصبة ... هم في مراعي المنكرات حمير

وإني أجل الدين عن عزه بهم ... وأعلم أن الذنب فيه كبير

ونقل عن الإمام النووي أنه كان يكره من يلقبه بمحيي الدين، ويقول: لاأجعل من دعاني به في حل، ومال إلى ذلك العارف بالله تعالى الشيخ سنان في كتابه تبيين المحارم، وأقام الطامة الكبرى على المتسمين بمثل ذلك، وأنه من التزكية المنهي عنها في القرآن ومن الكذب، قال: ونظيره ما يقال للمدرسين بالتركي: "أفندي" و"سلطان" ونحوه ثم قال: فإن قيل: هذه مجازات صارت كالأعلام، فخرجت عن التزكية. فالجواب: أن هذا يرده ما يشاهد من أنه إذا نودي باسمه العلم وجد على من ناداه به فعلم أن التزكية باقية، وقد كان الكبار من الصحابة وغيرهم ينادون بأعلامهم ولم ينقل كراهتهم لذلك، ولو كان فيه ترك تعظيم للعلم وأهله لنهوا عنه من ناداهم بها اهـ. ملخصا. وقد أطال بما ينبغي مراجعته".فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144008201570

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں