بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کو سسرال میں مشکلات پیش آنا


سوال

میرا ذہن ساس اور نند سے نہیں ملتا اور ان کا مجھ سے نہیں ملتا،  میں نے قطع تعلق نہیں کیا،  لیکن الگ تھلگ رہتی ہوں،  شوہر کہتے ہیں کہ ان کی خیریت پوچھتی رہا کرو اور ان سے چائے وغیرہ پوچھتی رہا کرو،  لیکن میں اب ان کے رویہ سے تنگ آگئی ہوں؛ کیوں کہ شادی کے بعد شروع میں کچھ ماہ تک میں نے ان کی خدمت کی بھی تھی، لیکن پھر بھی مجھے طعنے سننے کو ملتے اور میری بیماریوں میں تکلیف کو وہ ڈرامے اور منافقت سمجھتے،  یہاں تک کہ جب میرے پیٹ میں حمل تھا اور ڈاکٹر نے اس وقت آرام کا کہا تھا، اس وقت بھی کام نہ کرنے پر مجھے باتیں سننے کو ملتیں۔ میں ان سے الگ رہنا چاہتی ہوں، لیکن میرے شوہر کی مالی استطاعت نہیں اتنی کہ الگ سے رہ سکیں ہم۔ میرے شوہر مجھ سے ناراض ہوتے ہیں اور یوں دھمکی بھی دیتے ہیں کہ ان کے ساتھ مل کر رہو، ورنہ تمہیں چھوڑ دوں گا اور رشتہ ختم کردوں گا،  میں کیا کروں؟ میرے شوہر پر کیا ذمہ داری ہے؟

جواب

میاں بیوی کا باہمی اور اسی طرح سسرالی رشتہ حسنِ اخلاق، حسنِ معاشرت  اور ہم دردی و  ایثار  کے جذبہ سے ہی چل سکتا ہے، شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی کے حقوق میں توازن رکھا ہے  اور حسنِ معاشرت کا حکم دے کر  یہ واضح کیا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ باہم اخلاقیات اور ایثار اور ہم دردی سے چلتا ہے،  کچھ چیزیں  بیوی کے ذمہ لازم نہیں کیں، اور کچھ شوہرکے ذمہ لازم نہیں کیں، لیکن حسنِ معاشرت کے باب میں دیانۃً اور اخلاقاً یہ چیزیں  دونوں کی ایک  دوسرے پر لازم ہیں۔

لہذا عورت کے ذمہ ساس کی خدمت  اگرچہ شرعاً واجب نہیں ہے، لیکن اَخلاقی طورپر عورت کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اُس کے شوہر کی ماں ہے، جس طرح اَپنی ماں کی راحت کا خیال رکھتی ہے اِسی طرح شوہر کی ماں کی خدمت اور اُن کو راحت پہنچانا اُس کی اخلاقی ذمہ داری میں شامل ہے، لیکن اس میں یہ پہلو بھی پیشِ نظر ہونا چاہیے کہ شوہر اپنی بیوی کو اپنے والدین کی خدمت پر یا ساس کا اپنی بہو کو خدمت پر مجبور کرنا اور اس پر اس ظلم جبر کرنا درست نہیں ہے، (بلکہ خود شوہر پر اپنے والدین کی خدمت کرنا ضروری ہے)  یعنی دونوں طرف اعتدال کی ضرورت ہے، ساس کو چاہیے کہ وہ اپنی بہو کو بیٹی کی طرح سمجھے، اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو، اور بہو کو چاہیے کہ وہ ساس کو اپنی ماں کی طرح سمجھے اور اس کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھے، اس سے گھریلو زندگی میں خوش گوار ماحول پیدا ہوگا، اور میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ پائے دار اور مستحکم ہوگا۔

                          آپ اور آپ کے شوہر کو کچھ وقت صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا، یہ زیادہ پریشانی کی بات نہیں، انسانی نفسیات کے کچھ مراحل ہوتے ہیں، عموماً شادی بیاہ کے ابتدائی سالوں یا مہینوں میں یہ مسائل پیش آہی جاتے ہیں، ان مواقع پر اگر دوسرے کی نفسیات سمجھ کر اس سے برتاؤ کیا جائے تو حالات پر قابو پانا آسان ہوجاتاہے، فطری بات ہے کہ والدین جنہوں نے بچپن سے لے کر بچے کو جوانی تک پالا ہو، اور بڑی چاہ اور مان سے اس کی شادی کرکے بہو گھر لائے ہوں، انہیں اپنے بیٹے سے شدید محبت ہوتی ہے، اور شادی سے پہلے تک اولاد کی عموماً توجہ والدین کی طرف ہی ہوتی ہے، اور اولاد کی توجہ یک سو ہو یا نہیں، والدین کی توجہ بہر حال اولاد ہی کی طرف ہوتی ہے، اور انہیں یہی محسوس ہوتاہے کہ بیٹا ہمیں نظر انداز نہیں کرتا، اور شادی کے بعد لامحالہ جب بیوی بچوں کی فکر میں بیٹا کچھ کرتاہے، انہیں کچھ وقت دیتاہے تو والدین کو احساس ہوتاہے کہ یہ ہمیں نظر انداز کررہاہے، توجہ نہیں دے رہا، یا بعض اوقات یہ احساس جگہ بناتاہے کہ ہم نے اس کے لیے ساری زندگی کیا کیا نہیں کیا، اب بڑھاپے میں کہیں یہ بیوی بچوں کی خاطر ہمیں بے سہارا نہ چھوڑ دے، ان نفسیاتی کیفیات میں عموماً دوریاں ہوجاتی ہیں، آپ بھی شوہر کے والدین اور بہن بھائیوں کی کیفیات کا احساس کیجیے اور ان اَحوال کو فطری مراحل سمجھیے تو ان سے نبرد آزما ہونا آسان ہوجائے گا، ایک آسان حل اور راستہ آپ اور آپ کے شوہر کے لیے یہ ہے کہ آپ دونوں باہم یہ طے کرلیں کہ ہم باہم تنہائی میں تو دلی محبت کے ساتھ ہی رہیں گے، اور وہی برتاؤ رکھیں گے جو صحیح معنیٰ میں زوجین کے درمیان ہونا چاہیے، لیکن ساس، سسر اور نندوں کے سامنے ہم ایک دوسرے کو زیادہ توجہ نہیں دیں گے، بلکہ سسرال والوں کا خیال رکھیں گے، اس دوران اگر زوجین میں سے کسی سے دوسرے کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے تو ہم دونوں ایک دوسرے کو دل سے معاف رکھیں گے، اس سے وہ سب خوش ہوجائیں گے، پھر تنہائی میں آپ معافی تلافی بھی کرلیں اور محبت سے رہیں۔

تاہم  اگر ساتھ  رہنا مشکل ہی ہو توشرعاً  بیوی پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ شوہر کے والدین کے ساتھ ہی رہے، بلکہ شریعت نے عورت کو الگ رہائش کا حق دیاہے،  ایسی صورت میں شوہر کے والدین اور اس کی بیوی دونوں کے حق میں روز انہ کی  اذیت سے بہتر یہ ہے کہ  الگ رہائش اختیار کرلیں، لیکن علیحدہ رہائش اختیار کرنے میں شوہر کے والدین سے قطع تعلق کی نیت نہ ہو، بلکہ نیت یہ ہو کہ ساتھ رہ کہ والدین کو جو اذیت ہم سے پہنچتی ہے اور جو بے ادبی ہوتی ہے اس سے بچ جائیں، غرض خود کو قصوروارسمجھ کر الگ ہونا چاہیے، والدین کو قصوروار ٹھہرا کر نہیں۔ اور الگ ہونے کے بعد بھی شوہر کے والدین کی ہر خدمت کو اپنی سعادت سمجھا جائے۔

جہاں تک علیحدہ رہائش فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے توشریعت نے اس  معاملہ میں شوہر کی استطاعت اورحیثیت کوملحوظ رکھاہے ، اگرشوہراتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ مکمل طورپر جدا گھر  دے یا شوہر استطاعت رکھتاہے، لیکن بیوی متوسط یا عام خاندان سے تعلق رکھتی ہے تو گھرمیں سے ایک ایسا جدا مستقل کمرہ جس  کا بیت الخلا، باورچی خانہ وغیرہ الگ ہو اورعورت کی ضروریات کوکافی ہوجائے،جس میں وہ اپنامال واسباب تالا لگاکررکھ  سکے، کسی اور کی اس میں دخل اندازی نہ ہو،  ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے کافی ہے۔

مزید تفصیل کے لیے جامعہ کا فتوی یہاں ملاحظہ کریں :

ساس بہو کے اختلاف میں شوہر کے لیے لائحہ عمل نیز بیوی کے لیے جدا رہائش کے مطالبے کا حکم

اگر مزید راہ نمائی مطلوب ہو اور میل پر لکھنا مشکل ہو تو ہمارے دار الافتاء کے اوقات میں دار الافتاء آکر مفتیانِ کرام سے راہ نمائی لے لیں، اور اگر خود نہیں آسکتیں تو صبح 9 بجے سے دوپہر 12 بجے کے درمیان جامعہ ہٰذا کے درج ذیل نمبروں میں سے کسی نمبر پر رابطہ کرکے دار الافتاء کا ایکسٹینشن نمبر 2 ڈائل کیجیے:

92-21-34913570+
92-21-34121152+


فتوی نمبر : 144107200656

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں