بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی پر جبر کرکے نکاح کرانے کی حیثیت


سوال

لڑکا اور لڑکی ایک ہی شہر میں رہتے تھے، لڑکی کے گھر والے اپنی مرضی سے لڑکی کی شادی اس کے چچا کے بیٹے سے کرنا چاہتے تھے، جب کہ لڑکی صاف لفظوں میں اس شادی سے انکاری تھی، لڑکی نے اس شادی کو رکوانے کے لیے بہنوں سے مدد چاہی،  مگر بےسود،  لڑکی نے گھر والوں کو اپنی پسند کی شادی کا بتایا،جس کو گھر والوں نے رد کر دیا اور لڑکی کو گھر والے چچا کے بیٹے سے شادی پر مجبور کرنے لگ گئے، لڑکی کو جب صورتِ حال مشکل میں دکھائی دی تو اس نے یہ سوچ کر گھر چھوڑ کر کسی گرلز ہاسٹل میں رہائش پذیر ہونے کا ارادہ کیا کہ جب تک گھر والے اس کی شادی چچازاد سے کرنے سے دست بردار نہیں ہوں گے وہ گھر نہیں جائے گی اور وہ گھر چھوڑ کر، گھر کے کسی فرد کو بتائے بغیر، کسی گرلز ہاسٹل پہنچ گئی، جب شام تک لڑکی گھر واپس نہ آئی تو گھر والوں کو تشویش ہوئی اور ڈھونڈنا شروع کردیا، گھر والوں کو شک اپنی بیٹی کی اسی پسند پر گیا کہ اسی لڑکے کے ساتھ ہو گی، انہوں نے لڑکے سے رابطہ کیا کہ ہماری لڑکی تیرے پاس ہے تو  جواب میں لڑکے نے کہا کہ اس کو نہیں خبر کہ وہ کہاں ہے، کیوں کہ لڑکی اس لڑکے کے پاس نہیں تھی، لڑکی کے گھر والوں نے پولیس میں اطلاع دے دی اور ساتھ ہی لڑکے کی منتیں کرنے لگے کہ اگر تمہارے پاس ہے تو اللہ کا واسطہ ہے عزت بچا لو، واپس لے کر آ جاؤ، تمہارے ساتھ  ہی شادی کرا دیں گے اس کی، بس عزت رکھ لو وغیرہ وغیرہ،  لڑکے نے صاف لفظوں میں کہا کہ میرے پاس ہوتی تو میں لے کر آ جاتا، مگر میرے پاس آپ کی لڑکی نہیں ہے،  لڑکے نے لڑکی سے رابطہ کیا، اس کی لوکیشن جان کر اس کو گھر  کی صورتِ حال سے آگاہ کیا کہ گھر والے پریشان ہیں تو  لڑکی نے واپس جانے سے انکار کر دیا، لڑکے نے سمجھایا کہ آپ کے گھر چھوڑنے کا مقصد یہی تھا کہ جب تک گھر والے اس کی زبردستی شادی کے فیصلے سے دست بردار نہیں ہوں گے، وہ واپس نہیں جائے گی، اب گھر والے قسمیں دے رہے ہیں کہ وہ آپ کی شادی آپ کی مرضی سے کرائیں گے ،مقصد جو تھا وہ پورا ہو گیا ہے، پاگل مت بنیں، آپ اور گھر والوں سے رابطہ کر کے آپ واپس جائیں، لڑکی رو رو کر دوہائیاں دیتی رہی کہ گھر والے جھوٹ بول رہے ہیں، وہ کسی صورت نہیں مانیں گے، وہ گھر جائے گی تو گھر والے اس کو ماریں گے،  پیٹیں گے، گھر میں قید کر دیں گے، پڑھائی ختم کرا دیں گے، نوکری بھی نہیں کرنے دیں گے اور نہ ہی آپ سے شادی کرائیں گے، لڑکے نے کہا کہ وہ اللہ کی قسمیں کھا رہے ہیں، لڑکی نے کہا وہ جھوٹی قسمیں کھا رہے ہیں تو لڑکے نے کہا کہ وہ بھلے جھوٹی قسمیں کھا رہے ہیں، لیکن ہمیں تو اپنے اللہ پر سچا یقین ہے نا، اللہ کے نام کی قسم کا مان رکھ کر آپ واپس جاؤ اور لڑکی گھر چلی گئی، اور بالکل ویسا ہی ہوا جیسا لڑکی کہہ رہی تھی، اس کو مارا پیٹا گیا،  گھر میں محدود کر دیا گیا، پڑھائی ختم اور ایک اضافی اقدام یہ ہوا کہ اس کے پاک دامن ہونے کو مشکوک سمجھا جانے لگا، کچھ عرصہ تو لڑکی نے اس تمام صورتِ حال کو برداشت کیا، لیکن ایک دن پھر اس نے فیملی کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا کہ وہ چچا کے بیٹے سے شادی نہیں کرے گی،جس پر بیرونِ ملک سے آئے ہوئے بھائی نے کہا کہ ٹھیک ہے تو اب پہلے میں اس لڑکے کو قتل کروں گا، اس کے بعد آپ سے پوچھوں گا جس پر لڑکی چپ ہو گئی اور گھر والوں نے معاملے کو نمٹانے کی خاطر شادی کی تاریخ مقرر کر دی اور لڑکی کی شادی اس کے چچا کے بیٹے سے ہی کر دی گئی، شادی اسلامی طرز پر ہی کی گئی، لڑکی سے نکاح کی اجازت لینے اس کے ماموں اور چاچو آئے، جن کے سامنے لڑکی نے نکاح کی اجازت دی، سوال یہ کہ اس شادی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟  کیا اس شادی میں کوئی زبردستی کا عنصر شامل تو نہیں؟

جواب

ہر چند کہ عاقلہ بالغہ کی جبراً شادی کرانا اچھا نہیں ہے، تاہم اگر واقعۃً  نکاح سے پہلے لڑکی سے اجازت لی گئی تھی اور اس نے اجازت دے دی تھی تو یہ نکاح منعقد ہوگیا ہے، اب لڑکی کو  گھر بسانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں