بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

لڈو کھیلنا


سوال

میرا ایک کزن ہے جو قاری بھی ہے اور اب ساتویں درجہ میں علم بھی حاصل کر رہا ہے، لیکن وہ لڈو کھیلتا ہے۔ لڈو پر جواری تو نہیں کرتا،  لیکن وہ کھیلتا ہے اور ہر بات پر قسمیں کھاتا ہے۔ تو یہ کیسا عمل ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کوئی بھی کھیل اس وقت جائز ہوتا ہے کہ جب اس سے ذہنی یا جسمانی طور پر انسان کو فائدہ پہنچ رہا ہو بشرطیکہ اس میں خلافِ شرع امور میں سے کسی امر کا ارتکاب نہ ہورہا ہو،  لڈو کھیلنا چاہے تفریحِ طبع کے لیے ہو وقت کا ضیاع ہے  جو کہ جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے،  اپنے قیمتی وقت کو اچھے اور نیک کاموں میں خرچ کرنا چاہیے۔

جس وقت سخت ضرورت ہو اس وقت قسم کھانی چاہیے، اللہ کے ذاتی نام اور صفاتی ناموں کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانا جائز نہیں۔ سائل کو چاہیے کہ وہ حکمت کے ساتھ خود یا کسی بڑے کے ذریعے اپنے عزیز کو نصیحت کرے، اور اس کے لیے دعا بھی کرے۔

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

’’تاش کھیلنا یا لڈو کھیلنا بہت برا ہے، اور اگر اس پر ہار  جیت کی ہو تو جوا ہے اور بالکل حرام ہے، گناہِ کبیرہ سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے، ایک گناہ سے بچنے کے لیے دوسرے گناہ کو اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے، کامیاب مؤمنین کی شان اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یوں بیان کی ہے۔ {وَالَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ}  کامیاب مؤمنین وہ ہیں جو لہو ولعب سے اعراض کرتے ہیں۔

حضرت شیخ الہندؒ لکھتے ہیں کہ خود تو لہو ولعب میں مصروف نہیں ہوئے، بلکہ اگر کوئی اور شخص بھی لہو ولعب میں مصروف ہو تو اس سے بھی اعراض کرتے ہیں‘‘۔  (ماخوذ از فتاویٰ مفتی محمود ج: 11، ص: 259، باب الحظر والاباحۃ، ط: اشتیاق پریس لاہور) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200032

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں