بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لوگوں کو وعظ ونصیحت کرنے کے لیے جمعہ کا ایک خطبہ مقامی زبان میں دینا


سوال

بندہ لاطینی امریکہ کی ایک مسجد کا امام ہے جہاں اسپینش زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے، علاقہ شافعی المسلک عرب حضرات کا ہے، عوام میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو صرف جمعہ میں حاضر ہوتے ہیں اور اسپینش بولتے اور سمجھتے ہیں، جمعہ کا خطبہ عربی میں ہوتا ہے تقریبا آدھا گھنٹہ،اور اس کا لائیو ترجمہ ویب سائٹ پر نشر کیا جاتا ہے، لیکن مقتدی حضرات اس سے مطمئن نہیں اور ان کا مطالبہ یہ ہے کہ بجائے ترجمہ کے اگر اصل خطبہ ہی اسپینش میں ہو تو بہتر اور زیادہ فائدہ مند ہوگا، نیز لوگ اصل خطبہ کو ہی اہمیت دیتے ہیں،خطبہ سے قبل تقریر وغیرہ کا مزاج نہیں ہے، تو کیا فقہی اعتبار سے اس کی گنجائش ہے کہ خطبے کا بعض حصہ عربی میں ہو اور بعض اسپینش میں؟مثلا پہلا عربی میں اور دوسرا اسپینش میں۔

جواب

جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لیے خطبہ کا ہونا شرط ہے  اور دو خطبوں کا ہونا  مسنون اور سنتِ متوارثہ ہے،   جمعہ کے دونوں خطبے عربی زبان میں ہونا ضروری ہے، اس لیے کہ  جمعہ کے خطبے میں وعظ کے ساتھ بنیادی پہلو ذکر اللہ ہے، [الجمعہ: 9] اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی عجمی ممالک فتح کرنے کے بعد  اسی پہلو کو ترجیح دیتے ہوئے عجمی ملکوں میں بھی ہمیشہ جمعہ کا خطبہ عربی میں ہی دیا، اور اہلِ عجم کے لیے ان کی زبان میں ترجمانی کی فکر وسعی نہیں کی، لہٰذا قرنِ اول سے امت کے مسلسل تعامل کی بنا پر جمعے کا خطبہ عربی میں ہونا ضروری ہے، اس لئے فقہی اعتبار سے خطبہ کا بعض حصہ غیر عربی زبان میں دینے کی گنجائش نہیں ہے،لہٰذا مقتدی حضرات کو بھی عربی میں ہی خطبہ سننا چاہیے اور خطیب صاحب سے غیر عربی زبان میں خطبہ دینے کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے ۔

لوگوں کو وعظ ونصیحت کرنے کے لیے خطبہ سے پہلے یا جمعہ کی نماز کے بعد مقامی زبان میں مختصر بیان کرلیا جائے۔

مجموعہ رسائل لکھنوی میں ہے:

"الخطبة بالفارسية التي احدثوها واعتقدوا حسنها ليس الباعث اليها الا عدم فهم العجم اللغة العربية ، وهذا الباعث قد كان موجودا في عصر خير البرية، وان كانت في اشتباه فلا اشتباه في عصر الصحابة والتابعين  ومن تبعهم من الائمة المجتهدين حيث فتحت الامصار الشاسعة والديار الواسعة واسلم كثير الحبش والروم والعجم وغيرهم من الاعجام، وحضروا مجالس الجمع والاعياد وغيرها من شعائر الاسلام، وقد كان اكثرهم لا يعرفون اللغة العربية، ومع ذالك لم يخطب لهم احد منهم بغير العربية، ولما ثبت وجود الباعث في تلك الازمنة وفقدان المانع والتكاسل ونحوه معلوم بالقواعد المبرهنة لم يبق الا الكراهة التي هي اوفى درجات الضلالة".

(مجموعہ رسائل اللکنوی(4/378) رسالۃ آکام النفائس فی الاذکار بلسان الفارس، ص:46، 47، ط: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ)

عمدۃ الرعایۃ میں ہے:

"لاشك في ان الخطبة بغير العربية خلاف السنة المتوارثة عن النبي صلي الله عليه وسلم والصحابة رضي الله تعالي عنهم، فيكون مكروها تحريما".

(عمدة الرعايہ علی شرح الوقایۃ(2/324) کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعہ۔ رقم الحاشیۃ:4، ط؛ دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200315

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں