بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہم جنس پرستی کی سزا کیا ہے؟


سوال

لواطت کی دنیاوی سزا کیا ہے شرعی حکومت میں؟  اور اگر شرعی حکومت موجود نہ ہو تو پھر سزا دینے کا طریقہ کیا ہوگا؟  یا سزا معطل ہوگی دنیاوی اعتبار سے؟

جواب

واضح رہے کہ شرعی حدود اور قانون میں متعین سزائیں جاری کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے، ہر آدمی اس کا مجاز نہیں؛ کیوں کہ اگر ہر کس و نا کس کو اس کی اجازت دے دی جائے تو ریاست میں انتشار اور بدامنی پیدا ہو جائے گی؛ لہذا حکومتِ وقت اگر حدود جاری نہ کرتی ہو تو کسی دوسرے شخص کو اس کی اجازت نہ ہو گی۔

اگر کوئی شخص ایسا عمل کرتا ہے  جو من جملہ دیگر گناہوں کے حضرت لوط علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کی قوم پر عذاب کا سبب بنا تھا  تو شریعت میں اس کے لیے ’’حد‘‘ مقرر نہیں ہے، بلکہ یہ حاکمِ وقت کی رائے پر مفوض کر دیا گیا کہ وہ جو سزا تجویز کرنا  مناسب سمجھے وہ سزا تجویز کردے، مثلاً اس کو قید کیا جا سکتا ہے، اور اگر بار بار کرتا ہو تو اس کو قتل کر دیا جائے وغیرہ، ایسے مجرم کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مختلف قسم کی سزائیں ثابت ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 27):
"مطلب في حكم اللواطة

(قوله: بنحو الإحراق إلخ) متعلق بقوله: يعزر. وعبارة الدرر: فعند أبي حنيفة يعزر بأمثال هذه الأمور. واعترضه في النهر بأن الذي ذكره غيره تقييد قتله بما إذا اعتاد ذلك. قال في الزيادات: والرأي إلى الإمام فيما إذا اعتاد ذلك، إن شاء قتله، وإن شاء ضربه وحبسه. ثم نقل عبارة الفتح المذكورة في الشرح، وكذا اعترضه في الشرنبلالية بكلام الفتح. وفي الأشباه من أحكام غيبوبة الحشفة: ولايحد عند الإمام إلا إذا تكرر؛ فيقتل على المفتى به. اهـ. قال البيري: والظاهر أنه يقتل في المرة الثانية لصدق التكرار عليه. اهـ".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 27):
"ولو اعتاد اللواطة قتله الإمام سياسةً".

درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 66):
"ولذا قال الكمال: لو اعتاد اللواطة سواء كان بأجنبي أو عبده أو أمته أو زوجته بنكاح صحيح أو فاسد قتله الإمام محصنًا كان أو غير محصن سياسةً اهـ".


فتوی نمبر : 144103200672

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں