بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لاٹری کا حکم


سوال

یہاں پر جرمن پوسٹ فرنچائز دیتی ہے. اگر میرے پاس کوئی جگہ ہے تو میں جرمن پوسٹ کو کہوںگا اور وہ آ کر چیک کرتے ہیں کہ جگہ کیسی ہے ، پھر وہ آپ کو  فرنچائز کھول کر دیتے ہیں. اب وہ اس فرنچائز کے ساتھ ایک چھوٹی سی جگہ بینک کے لیے بھی دیتے ہیں جوکہ الگ ہوتا ہے. اس میں آپ صرف کسٹمر کا اکاؤنٹ ہی کھول سکتے ہیں، یعنی صرف ڈیٹا انٹری ہی ہوتی ہے،  باقی کام مین برانچ سے ہی ہوتا ہے. اگر کوئی چیک کیش کرانے آئے تو چیک کیش ہو جاتا ہے، اور جو پیسے نکلوانے آئے تو ATM مشین لگی ہے. اگر مشین خراب ہو تو بینک کے کاؤنٹر سے پیسے مل جاتے ہیں. مہینے کے آخر میں جرمن پوسٹ آپ کو پیسے ادا کرتی ہے،  پوسٹ کا کام کرنے پر(سیل وغیرہ)  اور اگر بینک میں کسی نے اکاؤنٹ کھولا یا پیسے نکلوائے یا جمع کرائے،   بینک اور پوسٹ دونوں کے پیسوں کی ادائیگی بالکل الگ ہوتی ہے۔ اس میں لکھا ہوتا ہے کہ بینک کا کتنا منافع آیا اور پوسٹ کا کتنا. اصل ادائیگی کرنے والی کمپنی جرمن پوسٹ ہی ہے. مگر ان کی شرط یہی ہے کی پوسٹ کے ساتھ بینک بھی رکھنا پڑے گا. کیا ایسے ہو سکتا ہے کہ بینک کی تنخواہ سے وہاں کام کرنے والے غیر مسلم ملازمین کو تنخواہ ادا کر دی جائے اور پوسٹ کے پیسوں سے گھر کا خرچہ چلایا جائے؟ کیا یہ صورت جائز ہے؟

اسی طرح یہاں پر ایک صاحب نے ایک دکان لی ہوئی ہے. اس دکان میں انہوں نے لاٹری رکھی ہوئی ہے جو کہ میرے خیال میں جائز نہیں، مگر اس کے ساتھ انہوں نے کولڈ ڈرنکس،  چاکلیٹس،  اسٹیشنری،  اخبار میگزین اور آئسکریم وغیرہ بھی رکھی ہوئی ہے. تو لاٹری  کی کمائی سے وہ اپنے ملازمین کی تنخواہیں ادا کر دیتے ہیں اور باقی چیزوں کی کمائی سے گھر کا خرچہ چلاتے ہیں. کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

جرمن پوسٹ کی فرنچائز کے چلانے میں اس کے ساتھ ایک بینک  جو کہ اسی سے متعلق ہے اس کی فرنچائز بھی چلانی پڑتی ہے، اس کی خدمات بھی فراہم کرنا پڑتی ہیں ،  اس صورت میں حکم یہ ہے کہ  پوسٹ کی فرنچائز کا کام تو فی نفسہ جائز ہے، لیکن بینک کی خدمات فراہم کرنا اس کے سودی معاملات میں تعاون کرنا ہے؛  اس لیے نہ بینک  کی فرنچائز چلانا جائز ہے اور نہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حلال ہے؛ لہذا آئندہ  کے لیے اس بینک والے حصہ کا عقد ختم کرنا لازم ہے۔ مذکورہ جواب سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ جو عقد جائز ہی نہیں ہے، اسے انجام دینا اور اس کی آمدن کا استعمال بھی جائز نہیں ہوگا  اگرچہ اس آمدن سے صرف غیر مسلم ملازمین کو تنخواہ دی جائے۔ 

البتہ اگر دونوں چیزوں کا معاہدہ علیحدہ  علیحدہ  ہو  اور دونو ں کی آمدنی بھی علیحدہ علیحدہ آتی  ہو تو پوسٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی حلال  ہوگی۔

لاٹری(جس میں کچھ رقم ڈال کر یا اس کے ٹکٹ خرید کر قسمت آزمائی جاتی ہے اور انعام ملتا ہے) میں حاصل شدہ آمدنی حرام ہے۔ اس کا لگانا بھی جائز نہیں۔ اس کی آمدنی کا خود استعمال بھی جائز نہیں اور نہ اپنے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنا جائز ہے۔

 اس  لیے  ان کو چاہیے  کہ یہ لاٹری فی الفور ختم کردیں،  بقیہ آمدنی حلال ہے۔

" عن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ: قال لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء۔ رواہ مسلم"۔ (مشکاۃ المصابیح ۱:۲۴۴ باب الربا)

قال اللہ تبارک وتعالی: انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ۔ [سورۃ المائدۃ آیت:۹۰]
وقال اللہ تعالیٰ: ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان۔ [سورۃ المائدۃ آیت:۲] 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201873

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں