بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لاشعور کا مواخذہ / خیالات اور وسوسوں کی تقسیم اور پر مواخذہ کی تفصیل


سوال

کیا انسان شعور کے علاوہ اپنے لاشعور کا بھی ذمہ دار ہے؟

جواب

انسان کے دل ودماغ میں آنے والے خیالات ، کیفیات اور  مختلف نوع کے ارادوں میں سے کس پر آخرت میں مواخذہ ہوگا اور کس پر نہیں؟ اس میں کچھ تفصیل ہے:

(1)  کسی  بات کا خیال اچانک اور بے اختیار دل یا دماغ میں میں آکر گزرجائے، اس کو اصطلاح میں " ہاجس" کہتے ہیں۔

(2) اگر خیال دل میں ٹھہر جائے  اور خلجانی کیفیت پیدا ہوجائے ، لیکن دل میں اس کے کرنے یا نہ کرنے کا کوئی خیال پیدا نہ  ہو تو اس کو " خاطر" کہتے ہیں۔

(3)  دل میں اس کا خیال تو پیدا ہو  کہ اسے کرے یا نہ کرے، لیکن کسی ایک جانب کو ترجیح نہ ہو تو اس کو "حدیث النفس" کہتے ہیں۔

مذکورہ تینوں طرح کے خیالات اور وساوس غیر اختیاری ہیں اور یہ گزشتہ امت میں بھی معاف تھے اور اس امت میں بھی معاف ہیں کہ ان پر کوئی  مؤاخذہ نہیں ہے، اور اگر کسی نیکی کے بارے میں اس درجے میں خیال ہو تو اس پر ثواب بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کسی گناہ  کا غیر ارادی طور پر خیال آجائے اور مذکورہ تین مراتب سے آگے نہ بڑھے تو اس پر مؤاخذہ نہیں ہوگا۔

(4) کسی بات کا دل ودماغ میں خیال پیدا ہو، اور وہ ٹھہرا رہے، مسلسل رہے، مستقل خلجان پیدا ہو،  طبیعت کی خواہش بھی اس کے کرنے کی ہو اور ایک گونہ لذت بھی اس کے تئیں محسوس ہو لیکن اس کے کرنے کا پختہ ارادہ نہ ہو تو اس کو " ہم " کہتے ہیں ، کسی گناہ کا خیال اس درجے میں ہو تو یہ بھی  امت محمدیہ سے معاف ہے، اس پر بھی کوئی مؤاخذہ نہیں ہے ، اور جب تک یہ عملی صورت اختیار  نہ کرے اس کی وجہ سے اعمال نامہ میں کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا،  بلکہ اگر عمل کا قصد ہوجائے اور پھر اس سے اپنے آپ کو باز رکھے تو اس کے بدلہ میں نیکی لکھی جاتی ہے۔ اور اگر اس درجے میں کسی نیکی کا خیال دل میں آگیا تو اس پر ایک نیکی نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہے۔

(5) انسانی طبیعت اور نفس کا کسی خیال یا بات کو اپنے دل ودماغ میں جمالینا، اور اس سے نفرت وکراہیت کا نہ ہونا، اور اس پر عمل کرنے  کا ایسا پختہ ارادہ کرلینا کہ اگر کوئی خارجی مانع (رکاوٹ) نہ ہو اور اسباب وذرائع مہیا ہوں تو وہ یقینی طور پر عملی صورت اختیار کرلے ، اسے "عزم " کہتے ہیں ، اور یہ صورت قابلِ مؤاخذہ ہے،  لیکن اس مواخذہ کی نوعیت عملی طور پر ہونے والے گناہ کے مواخذہ سے کم ہوگی، مطلب وسوسہ بصورتِ عزم جب تک دل میں رہے گا اس پر  کم گناہ ہوگا اور جب خارج میں عملی صورت اختیار کرلے گا تو گناہ زیادہ ہوگا۔ اور ظاہر ہے کہ ''عزم'' کے درجے میں جب گناہ کے ارادے پر گناہ لکھا جاتاہے تو اس درجے کے ارادے پر نامہ اعمال میں نیکی بھی ضرور لکھی جائے گی۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ وسوسہ اور خیالات کی مذکورہ بالا تقسیم ان افعال و اعمال کی بنسبت ہے جن کے وقوع اور صدور کا تعلق ظاہری اعضاءِ جسم سے ہے، جیسے: زنا ، چوری وغیرہ۔ جہاں تک عقائد ونظریات سے متعلق باتیں ہیں جو دل و دماغ کا فعل کہلاتی ہیں، جیسے: برا عقیدہ، اور حسد وغیرہ   تو وہ اس تقسیم میں داخل نہیں ہے، ان کے ہمیشہ استمرار پر بھی مواخذہ ہوتا ہے۔

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 141)
'' وأما الوسوسة التي لا تعلق لها بالعمل والكلام من الأخلاق والعقائد فهي ذنوب بالاستقرار ۔ انتهى. وقال الحافظ في الفتح في شرح ''باب من هم بحسنة أو سيئة من الرقاق'': قسم بعضهم ما يقع في النفس أقساماً، أضعفها أن يخطر له ثم يذهب في الحال، وهذا من الوسوسة، وهو معفو عنها، وهو دون التردد، وفوقه أن يتردد فيه فيهم به ثم ينفر عنه فيتركه، ثم يهم به ثم يترك كذلك ولا يستمر على قصده، وهذا هو التردد، فيعفي عنه أيضاً. وفوقه أن يميل إليه ولاينفر عنه لكن لا يصمم على فعله، وهذا هو الهم، فيعفي عنه أيضاً. وفوقه أن يميل إليه ولا ينفر منه بل يصمم على فعله، فهذا هو العزم، وهو منتهى الهم، وهو على قسمين: الأول أن يكون من أعمال القلوب صرفاً كالشك في الوحدانية أو النبوة، فهذا كفر، ويعاقب عليه جزماً، ودونه المعصية التي لا تصل إلى الكفر، كمن يحب ما يبغضه الله، ويبغض مايحبه الله، فهذا يأثم به، ويلتحق بذلك الكبر والبغي ونحوهما. ولم يقع البحث والنزاع في هذا القسم. والقسم الثاني أن يكون من أعمال الجوارح كالزنا والسرقة. وهو الذي وقع النزاع فيه، فذهب طائفة إلى عدم المؤاخذة بذلك أصلاً، وذهب كثير من العلماء إلى المؤاخذة بالعزم المصمم. قلت: وهو الراجح المعمول عليه. قال الحافظ: واستدلوا بقوله: ﴿ وَلٰكِنْ يُّـؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ ﴾ [2: 225] وحملوا حديث أبي هريرة هذا على الخطرات، ثم افترق هؤلاء فقالت طائفة: يعاقب عليه صاحبه في الدنيا خاصة بنحو الهم والغم. وقالت طائفة: بل يعاقب عليه يوم القيامة، لكن بالعتاب لا بالعذاب ۔ انتهى كلام الحافظ ملخصاً. وقال الحفني ملخصاً لكلام السبكي الكبير في الحلبات: إن المراتب خمسة: هاجس وخاطر وحديث نفس وهم وعزم، فالشيء إذا وقع في القلب ابتداءً ولم يحل في النفس سمي ''هاجساً''، فإذا كان موفقاً ودفعه من أول الأمر لم يحتج إلى المراتب التي بعدها: فإذا جال أي تردد في نفسه بعد وقوعه ابتداء ولم يتحدث بفعل ولا عدمه سمى ''خاطراً''، فإذا حدثته نفسه بأن يفعل أو لا يفعل على حد سواء من غير ترجيح لأحدهما على الآخر سمي ''حديث نفس''، فهذه الثلاثة لا عقاب عليها إن كانت في الشر، ولا ثواب عليها إن كانت في الخير، فإذا فعل ذلك عوقب أو أثيب على الفعل لا على الهاجس والخاطر وحديث النفس، فإذا حدثته نفسه بالفعل وعدمه مع ترجيح الفعل لكن ليس ترجيحاً قوياً بل هو مرجوح كالوهم سمي ''هماً''، فهذا يثاب عليه إن كان في الخير، ولا يعاقب عليه إن كان في الشر، فإذا قوي ترجح الفعل حتى صار جازماً مصمماً بحيث لا يقدر على الترك سمي ''عزماً''، فهذا يثاب عليه إن كان في الخير، ويعاقب عليه إن كان في الشر''۔

فيض الباري على صحيح البخاري (4/ 25)
'' ومن ههنا علمت السر في عدم تعرض الحديث لهذا النحو من العزم، وهو أن الحديث إنما ورد في مبادىء أفعال الجوارح فقط، أما العزم على الأفعال القلبية، كالأخلاق الفاسدة، فليست من مبادىء أفعال الجوارح، كما علمت، بمعنى أنها لا تقع في مبادئها، فإنها تقتصر على الباطن فقط، بخلاف النحو الأول، فإنها تنبعث من الباطن، وتتقوى شيئاً فشيئاً حتى تسخر الظاهر أيضاً، فيتابعها تارةً، ويركب تلك المعصية. والحاصل أن الحديث ورد في الوساوس التي تكون مبادىء لأفعال الجوارح، وسكت عن حكم العزم عليها؛ وأما حكم سائر العزم، مما لا تعلق لها بتلك الأفعال، فهي خارجة عن سياق الحديث. ثم نلقي عليك شيئاً لتفصيل المسألة، وهو أن مرائب القصد خمس، ضبطها بعضهم في هذين البيتين:
*مراتب القصد خمس: هاجس ذكروا ... فخاطر، فحديث النفس، فاستمعا
*يليه هم، فعزم، كلها رفعت ... سوى الأخير، ففيه الأخذ قد وقعا
فالخاطر اسم لما يخطر ببالك، ولا يكون له استقرار في الباطن؛ فان استقر شيئاً يقال له: ''الهاجس''، وإن استقر ولم يخرج، ولكن لم يترجح أحد جانبي الفعل، أو الترك عندك، يقال له: ''حديث النفس''، فإن ترجح، وترددت فيه النفس، فهم؛ وإن أجمعت عليه، ''فعزم''. ثم إن الثلاثة الأول عفو في طرفي الطاعة والمعصية، فلا ثواب عليها، ولا عقاب، أما الهم فهو عفو في جانب المعصية، ومعتبر في جهة الطاعة.
بقي العزم، فإنه معتبر في الجهتين؛ ومن ظن أنه عفو لهذا الحديث فقد غلط. لا أقول: إن العزم على المعصية، كالعمل بها يعينه، بل هو دونه؛ فثواب العزم على الطاعة أدون من ثواب العمل بالطاعة، وكذا عقاب العزم على المعصية، أخف من العمل بالمعصية. ثم العزم إن بلغ إلى حد العمل حتى عمل بموجبه، فإن كان على الطاعة تكتب له عشر حسنات، وإن كان على المعصية لا تكتب له إلا سيئة، وإن لم يبلغ إلى حد العمل، فإن كان على الطاعة تكتب له طاعة واحدة، وإن كان على المعصية تكتب له معصية العزم لا غير، فإن كف عنها خوفاً من ربه تمحى عنه معصية العزم، وتكتب حسنة مكانها''۔
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201519

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں