بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

لا تجعلوا قبری عیداً سے بار بار رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر حاضر ہونے پر رد کرنا


سوال

کیا مدینہ شریف حاضری کے وقت نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے روضہ مبارک پر بار بار حاضر ہو کر سلام پیش کرنا درست ہے ؟ بعض حضرات کا  "لا تجعلوا قبری عیدا" سے بار بار حاضر ہونے پر رد کرنا کیا درست ہے؟

جواب

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ میری قبر کو میلہ اور تفریح کی جگہ نہ بنانا،  جیسے عید کا موقع عموماً غفلت اور کھیل کود کا موقع ہوتاہے۔  اور ایک مطلب یہ  ہے کہ عید جیسے سال میں دو مرتبہ آتی ہے اس طرح نہ بنانا بلکہ زیادہ زیارت کرنا، لہذا یہ معنی زیادہ راجح ہے۔

یا یہ مطلب ہوگا کہ عید کی طرح اسے صرف رسم نہ بنانا، یا محض عادت کے طور پر نہ آنا، بلکہ ادب اور مقام کو ملحوظ رکھتے ہوئے  حاضر ہونا۔ اگر  بار بار آنے کی ممانعت ہو تو بھی امت کو مشقت سے بچانے کے لیے ہے، یا بار بار ادب کا لحاظ نہ رکھتے ہوئے آنے سے ممانعت ہے،  نہ کہ زیارت سے منع کرنے کے لیے، لہٰذا اگر بار بار ادب کے ساتھ زیارت کرے تو یہ زیادہ سعادت کی بات ہے۔

لہذا اس حدیث سے استدلال درست نہیں۔ اور ہمارے دیار سے جو لوگ عمرے وغیرہ جاتے ہیں کسی کو زندگی میں ایک مرتبہ یا کسی کو سالوں میں عمرے کا موقع ملتا ہے، لہذا ان کا وہاں کے ہفتے بھر کے قیام میں ہر نماز میں سلام پیش کرنے کو بار بار نہیں کہا جائے گا، بلکہ اس کو تو یہ سعادت بہت کم ہی ملتی ہے، تو اس کو اس سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 744):
(" «وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا» ") : هُوَ وَاحِدُ الْأَعْيَادِ، أَيْ: لَا تَجْعَلُوا زِيَارَةَ قَبْرِي عِيدًا، أَوْ لَا تَجْعَلُوا قَبْرِي مَظْهَرَ عِيدٍ، فَإِنَّهُ يَوْمُ لَهْوٍ وَسُرُورٍ، وَحَالُ الزِّيَارَةِ خِلَافُ ذَلِكَ، وَقِيلَ: مُحْتَمَلٌ أَنْ يَكُونَ الْمُرَادُ الْحَثَّ عَلَى كَثْرَةِ زِيَارَتِهِ، وَلَا يُجْعَلُ كَالْعِيدِ الَّذِي لَا يَأْتِي فِي الْعَامِ إِلَّا مَرَّتَيْنِ.
قَالَ الطِّيبِيُّ: نَهَاهُمْ عَنِ الِاجْتِمَاعِ لَهَا اجْتِمَاعَهُمْ لِلْعِيدِ نُزْهَةً وَزِينَةً، وَكَانَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى تَفْعَلُ ذَلِكَ بِقُبُورِ أَنْبِيَائِهِمْ، فَأَوْرَثَهُمُ الْغَفْلَةَ وَالْقَسْوَةَ، وَمِنْ عَادَةِ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ أَنَّهُمْ لَا يَزَالُونَ يُعَظِّمُونَ أَمْوَاتَهُمْ حَتَّى اتَّخَذُوهَا أَصْنَامًا، وَإِلَى هَذَا أَشَارَ لِقَوْلِهِ: " «اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِي وَثَنًا يُعْبَدُ» " فَيَكُونُ الْمَقْصُودُ مِنَ النَّهْيِ كَرَاهَةَ أَنْ يَتَجَاوَزُوا فِي قَبْرِهِ غَايَةَ التَّجَاوُزِ، وَلِهَذَا وَرَدَ: " «اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ» "، وَقِيلَ: الْعِيدُ اسْمٌ مِنَ الِاعْتِيَادِ يُقَالُ: عَادَهُ وَاعْتَادَهُ وَتَعَوَّدَهُ، أَيْ: صَارَ عَادَةً لَهُ، وَالْعِيدُ مَا اعْتَادَكَ مِنْ هَمٍّ أَوْ غَيْرِهِ، أَيْ: لَا تَجْعَلُوا قَبْرِي مَحَلَّ اعْتِيَادٍ فَإِنَّهُ يُؤَدِّي إِلَى سُوءِ الْأَدَبِ وَارْتِفَاعِ الْحِشْمَةِ، وَلَا يُظَنُّ أَنَّ دُعَاءَ الْغَائِبِ لَا يَصِلُ إِلَيَّ، وَلِذَا عَقَّبَهُ بِقَوْلِهِ: ( «وَصَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي» ) : قَالَ الطِّيبِيُّ: وَذَلِكَ أَنَّ النُّفُوسَ الزَّكِيَّةَ الْقُدُسِيَّةَ إِذَا تَجَرَّدَتْ عَنِ الْعَلَائِقِ الْبَدَنِيَّةِ عَرَجَتْ وَوَصَلَتْ بِالْمَلَأِ الْأَعْلَى، وَلَمْ يَبْقَ لَهَا حِجَابٌ، فَتَرَى الْكُلَّ كَالْمُشَاهَدِ بِنَفْسِهَا، أَوْ بِإِخْبَارِ الْمَلِكِ لَهَا، وَفِيهِ سِرٌّ يَطَّلِعُ عَلَيْهِ مَنْ تَيَسَّرَ لَهُ اهـ.
فَيَكُونُ نَهْيُهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ لِدَفْعِ الْمَشَقَّةِ عَنْ أُمَّتِهِ رَحْمَةً [عَلَيْهِمْ] ، (رَوَاهُ النَّسَائِيُّ) : قَالَ مِيرَكُ: وَرَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ أَيْضًا، كَمَا يُفْهَمُ مِنْ كَلَامِ النَّوَوِيِّ فِي الْأَذْكَارِ، قَالَ ابْنُ حَجَرٍ: وَرَوَاهُ أَحْمَدُ فِي مُسْنَدِهِ، وَأَبُو دَاوُدَ، وَصَحَّحَهُ النَّوَوِيُّ فِي الْأَذْكَارِ، وَفِي هَذَا الْبَابِ أَحَادِيثُ كَثِيرَةٌ".

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 274):
" (ولا تجعلوا قبري عيداً) العيد اسم لما يعود من الاجتماع العام على وجه معتاد عائد إما يعود السنة، أو يعود الأسبوع أو الشهر، ونحو ذلك. وقال ابن القيم: العيد ما يعتاد مجيئة وقصده من زمان ومكان، مأخوذ من المعاودة والاعتياد، فإذا كان اسماً للمكان فهو المكان الذي يقصد فيه الاجتماع والانتياب للعبادة عنده ولغير العبادة، كما أن المسجد الحرام ومنى ومزدلفة وعرفة والمشاعر، جعلها الله تعالى عيداً للحنفاء ومثابة للناس، كما جعل أيام العيد منها عيداً، وكان للمشركين أعياد زمانية ومكانية، فلما جاء الله بالإسلام أبطلها، وعوض الحنفاء منها عيد الفطر وعيد النحر، كما عوضهم عن أعياد المشركين المكانية بكعبة ومنى ومزدلفة وسائر المشاعر-انتهى. قيل: المراد بالعيد ههنا أحد الأعياد. أي لا تجعلوا زيارة قبري عيداً، والمعنى: لا تجتمعوا للزيارة اجتماعكم للعيد، فإنه يوم لهو وسرور وزينة وحال الزيارة مخالفة لتلك الحالة. قال المناوي: معناه النهي عن الاجتماع لزيارته. اجتماعهم للعيد إما لدفع المشقة، أو كراهة أن يتجاوزا حد التعظيم. وقيل: العيد ما يعاد إليه، أي لا تجعلوا قبري عيداً تعودون إليه متى أردتم أن تصلوا علي، فظاهره النهي عن المعاودة، والمراد المنع عما يوجبه، وهو ظنهم بأن دعاء الغائب لا يصل إليه".

المہند علی المفند میں ہے:

"عندنا و عند مشائخنا زیارة قبر سید المرسلین (روحی فداہ) من أعظم القربات و أہم المثوبات و أنجح لنیل الدرجات بل قریبة من الواجبات، وإن کان حصولہ بشدّ الرحال و بذل المہج و الأموال و ینوی وقت الارتحال زیارة علیہ الف الف تحیة و سلام و ینوی معہا زیارة مسجدہ صلی اللہ علیہ وسلم"۔

یعنی ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک زیارتِ قبر سید المرسلین (ہماری جان آپ پر قربان) اعلیٰ درجہ کی قربت اور نہایت ثواب اور سببِ حصولِ درجات ہے؛ بلکہ واجب کے قریب ہے، گو شدِّ رحال اور بذل جان و مال سے نصیب ہو اور سفر کے وقت آپ کی زیارت کی نیت کرے اور ساتھ میں مسجد نبوی وغیرہ کی نیت کرے۔ (المہند علی المفند: ۲۷)

"و قد اختلف فیہا أقوال أہل العلم، فذہب الجمہور إلی أنہا مندوبة، وذہب بعض المالکیة وبعض الظاہریة إلی أنہا واجبة، وقالت الحنیفة: إنہا قریبة من الواجبات، و ذہب ابن تیمیة الحنبلي، إلی أنہا غیر مشروعة"۔ (حاشیة إعلاء السنن: ۱۰/۴۹۹)

مسئلہ: اگر کسی وقت خاص مواجہ شریف پر حاضری کا موقع نہ ملے تو روضہ اقدس کے کسی طرف بھی کھڑے ہوکر یا مسجد نبوی میں کسی جگہ بھی سلام عرض کرسکتا ہے، اگرچہ اس کی وہ فضیلت نہیں جو سامنے حاضر ہوکر سلام عرض کرنے کی ہے۔ (جواہر الفقہ: ۴/۱۷۶)

جب تک مدینہ منورہ میں قیام ہو کثرت سے روضہٴ اقدس کے سامنے حاضر ہوکر سلام عرض کیا کرے، خصوصاً پانچ نمازوں کے بعد ۔ (زبدہ المناسک) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201107

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں