بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قے اندر لے جائے تو وضو اور روزے کا حکم


سوال

روزہ کی حالت میں نماز پڑھتے ہوئے تھوڑی سی قے منہ میں آئے اور آدمی اس کو نگل لے تو روزہ اور نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

مذکورہ صورت میں دو حکم الگ الگ ہیں، ایک وضو اور نماز کا حکم اور دوسرا روزے کا حکم۔

وضو کا حکم یہ ہے کہ اگر منہ بھر  قے ہوئی ہو تو وضو ٹوٹ گیا اور اگر منہ بھر نہیں ہوئی تو وضو نہیں ٹوٹا۔ منہ بھر ہونے کا مطلب ہےکہ مشکل سے منہ میں رکے۔اگر قے میں صرف بلغم گرا تو وضو نہیں ٹوٹا،  چاہے بلغم جتنا بھی ہو،منہ بھر ہو یا نہ ہو،سب کا ایک حکم ہے۔اگر قے میں خون گرے تو اگر پتلا اور بہنے والا ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ چاہے کم ہو یا زیادہ، منہ بھر ہو یا نہیں ہو،اور اگر خون جمے ہوئے  ٹکڑوں کی صورت میں ہو اور منہ بھر ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر کم ہو تو نہیں ٹوٹے گا۔ اور جس صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا تو نماز بھی فاسد ہوجائے گی۔

باقی روزے کا حکم یہ ہے کہ اگر بے اختیار نگل لی تو روزہ نہیں ٹوٹے گا اگر اپنے اختیار سے نگلی تو روزہ  ٹوٹ جائے گا خواہ تھوڑی سی ہو۔

"ينقض الوضوء قيء ملأفاه بأن يضبط بتكلف من مرة أي صفراء أو علق أي سوداء؛ وأما العلق النازل من الرأس فغير ناقض أو طعام أو ماء إذا أوصل إلى معدته وإن لم يستقر، وهو نجس مغلظ ولو من صبي ساعة ارتضاعه، هو الصحيح؛ لمخالطة النجاسة، ذكره الحلبي.

ولو هو في المريء فلا نقض اتفاقاً كقيء حية أو دود كثير لطهارته في نفسه،كماء فم النائم فإنه طاهر مطلقاً، به يفتی، بخلاف ماء فم الميت؛ فإنه نجس كقيء عين خمر أو بول وإن لم ينقض لقلته لنجاسته بالاصالة لا بالمجاورة، لاينقضه قيء من بلغم على المعتمد (أصلاً) إلا المخلوط بطعام فيعتبر الغالب، ولو استويا فكل على حدة. وينقضه دم مائع من جوف أو فم (غلب على بزاق) حكماً للغالب ( أو ساواه) احتياطاً. لاينقضه المغلوب بالبزاق، والقيح كالدم والاختلاط بالمخاط كالبزاق".

(رد المحتار على الدرالمختار) (حاشية ابن عابدين) (ج: ا/ص ٢٩٣۔٢٨٩) 

"وَإِنْ ذَرَعَهُ الْقَيْءُ وَخَرَجَ) وَلَمْ يَعُدْ (لَايُفْطِرُ مُطْلَقًا) مَلَأَ أَوْ لَا (فَإِنْ عَادَ) بِلَا صُنْعِهِ (وَ) لَوْ (هُوَ مِلْءُ الْفَمِ مَعَ تَذَكُّرِهِ لِلصَّوْمِ لَايَفْسُدُ) خِلَافًا لِلثَّانِي".

(قَوْلُهُ: لَايُفْسِدُ) أَيْ عِنْدَ مُحَمَّدٍ، وَهُوَ الصَّحِيحُ؛ لِعَدَمِ وُجُودِ الصُّنْعِ؛ وَلِعَدَمِ وُجُودِ صُورَةِ الْفِطْرِ، وَهُوَ الِابْتِلَاعُ وَكَذَا مَعْنَاهُ؛ لِأَنَّهُ لَايَتَغَذَّى بِهِ بَلْ النَّفْسُ تَعَافُهُ، بَحْرٌ". ( الشامية، كتاب الصوم، بَابُ مَا يُفْسِدُ الصَّوْمَ وَمَا لَا يُفْسِدُهُ الْفَسَادُ، ٢ / ٤١٤)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200723

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں