ایک صاحب کا معمول لوگوں کو قرض دے کر اپنے پاس رہن رکھنے کا تھا ، ان کے انتقال کے 4 سال کے بعد ایک دراز سے سونے کا قیمتی ہار برامد ہوا ،اہلیہ کہتی ہیں مجھے یقین ہے کہ یہ رہن ہی کا ہے، اگر شوہر لائے ہوتے تو مجھے ضرور دکھاتے ، چھپانے کی عادت ان کی نہیں تھی ، ان چار سالوں میں کبھی کوئی قرض دے کر ہار لینے والا نہیں آیا اور نہ ہی کوئی ایسا ذریعہ ہے کہ معلو م ہو جائے کہ کس کے قرض میں یہ ہار رہن رکھا گیا ، سوال یہ ہے کہ اب شرعًا اس ہار کا کیا حکم ہے ؟ امانت کے طور پر رکھا جائے یا مرحوم کی اہلیہ اپنے استعمال میں لائیں یا صدقہ کریں؟ یا جو صورت ہو وضاحت سے جواب عنایت فرمائیں!
مذکورہ ہار جس کا مالک معلوم نہیں ’’لقطہ‘‘ ہے، جس کا اب حکم یہ ہے کہ جس کے پاس ہار موجود ہے وہ اگر مستحقِ زکات ہے تو اسے اپنے استعمال میں لاسکتا ہے۔ اور اگر وہ زکات کا مستحق نہیں ہے تو مالک کی نیت سے اسے صدقہ کرد ے۔ اس کے بعد مالک آجائے اور ہار موجود ہو تو اسے واپس کرنا لازم ہوگا اور اگر صدقہ کردیا ہو اور مالک ضمان کا مطالبہ کرے تو تاوان ادا کرنا ہوگا۔
الفتاوى الهندية - (17 / 357):
"( كِتَابُ اللُّقَطَةِ ) هِيَ مَالٌ يُوجَدُ فِي الطَّرِيقِ وَلَا يُعْرَفُ لَهُ مَالِكٌ بِعَيْنِهِ ، كَذَا فِي الْكَافِي۔۔۔وَاخْتَلَفُوا فِيمَا بَيْنَهُمْ أَنَّ التَّرْكَ أَفْضَلُ أَوْ الرَّفْعَ ؟ ظَاهِرُ مَذْهَبِ أَصْحَابِنَا - رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى- أَنَّ الرَّفْعَ أَفْضَلُ ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ سَوَاءٌ كَانَتْ اللُّقَطَةُ دَرَاهِمَ أَوْ دَنَانِيرَ أَوْ عُرُوضًا أَوْ شَاةً أَوْ حِمَارًا أَوْ بَغْلًا أَوْ فَرَسًا أَوْ إبِلًا وَهَذَا إذَا كَانَ فِي الصَّحْرَاءِ فَإِنْ كَانَ فِي الْقَرْيَةِ فَتَرْكُ الدَّابَّةِ أَفْضَلُوَإِذَا رَفَعَ اللُّقْطَةَ يُعَرِّفُهَا فَيَقُولُ : الْتَقَطْتُ لُقَطَةً ، أَوْ وَجَدْتُ ضَالَّةً ، أَوْ عِنْدِي شَيْءٌ فَمَنْ سَمِعْتُمُوهُ يَطْلُبُ دُلُّوهُ عَلَيَّ ، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ.
وَيُعَرِّفُ الْمُلْتَقِطُ اللُّقَطَةَ فِي الْأَسْوَاقِ وَالشَّوَارِعِ مُدَّةً يَغْلِبُ عَلَى ظَنِّهِ أَنَّ صَاحِبَهَا لَا يَطْلُبُهَا بَعْدَ ذَلِكَ هُوَ الصَّحِيحُ ، كَذَا فِي مَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ وَلُقَطَةُ الْحِلِّ وَالْحَرَمِ سَوَاءٌ ، كَذَا فِي خِزَانَةِ الْمُفْتِينَ ، ثُمَّ بَعْدَ تَعْرِيفِ الْمُدَّةِ الْمَذْكُورَةِ الْمُلْتَقِطُ مُخَيَّرٌ بَيْنَ أَنْ يَحْفَظَهَا حِسْبَةً وَبَيْنَ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِهَا فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَأَمْضَى الصَّدَقَةَ يَكُونُ لَهُ ثَوَابُهَا وَإِنْ لَمْ يُمْضِهَا ضَمِنَ الْمُلْتَقِط أَوْ الْمِسْكِين إنْ شَاءَ لَوْ هَلَكَتْ فِي يَدِهِ فَإِنْ ضَمِنَ الْمُلْتَقِط لَا يَرْجِعُ عَلَى الْفَقِيرِ وَإِنْ ضَمِنَ الْفَقِير لَايَرْجِعُ عَلَى الْمُلْتَقِطِ وَإِنْ كَانَتْ اللُّقَطَةُ فِي يَدِ الْمُلْتَقِطِ أَوْ الْمِسْكِينِ قَائِمَةً أَخَذَهَا مِنْهُ ، كَذَا فِي شَرْحِ مَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144010200614
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن