بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قعدہ اولی میں التحیات کے بعد درود شریف پڑھنا


سوال

اگر کسی شخص نے فرض نماز کے قعدہ اولی میں التحیات کے بعد درود شریف پڑھا تو اس کو مکمل کرکے قیام کی طرف لوٹے، یعنی درود شریف پوری پڑھ کر کھڑا ہو یا ادھوری چھوڑ کر کھڑا ہونا ضروری ہے؟

جواب

چار یا تین رکعات والی فرض نماز کے پہلے قعدے میں تشہد کے بعد درود شریف پڑھے بغیر فوراً تیسری رکعت کے لیے اٹھنا لازم ہے، لہٰذا اگر بھولے سے درود شریف شروع کردیا تو یاد آتے ہی اسے چھوڑ کر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوجانا چاہیے اور آخر میں سجدۂ سہو کرنا چاہیے؛  رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرض نماز کے قعدہ اولیٰ میں درود شریف ثابت نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ قعدہ اولیٰ اتنا مختصر فرمایا کرتے تھے گویا آپ ﷺ گرم زمین پر تشریف فرما ہوں، اور بعض روایات میں ہے: گویا آپ ﷺ انگارے پر بیٹھے ہوں۔ یعنی قعدہ اولیٰ سے تیسری رکعت کے لیے جلد اٹھنے سے کنایہ ہے۔ چناں چہ آپ ﷺ تشہد پڑھتے ہی تیسری رکعت کے لیے اٹھ جایا کرتے تھے، امام ترمذی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث ذکر کرکے فرماتے ہیں: 

اہلِ علم کے ہاں اسی پر عمل ہے، چناں چہ وہ پہلی دو رکعت کا قعدہ طویل کرنے کو پسند نہیں کرتے، اور نمازی کو چاہیے کہ پہلی دو رکعت کے تشہد پر کچھ بھی اضافہ نہ کرے، علماء فرماتے ہیں: اگر تشہد پر کچھ اضافہ کیا تو سجدۂ سہو لازم ہوگا، امام شعبی رحمہ اللہ اور دیگر اہلِ علم سے اسی طرح منقول ہے۔

لہٰذا ہمارے لیے بھی یہی حکم ہے کہ قعدہ اولیٰ میں تشہد کے فوراً بعد درود شریف پڑھے بغیر کھڑے ہوجائیں۔

البتہ سننِ غیر مؤکدہ کے قعدہ اولی میں تشہد کے بعد درود شریف اور دعا پڑھ سکتے ہیں، یہ پڑھنا لازمی نہیں، مستحب ہے۔  جب کہ سننِ مؤکدہ (مثلاً ظہر اور جمعہ سے پہلے والی سنن) اور وتر کا وہی حکم ہے جو فرض نماز کا ہے۔ جیساکہ حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

و" إذا قام للشفع الثاني من الرباعية المؤكدة "لايأتي في" ابتداء "الثالثة بدعاء الاستفتاح" كما في فتح القدير، وهو الأصح كما في شرح المنية، لأنها لتأكدها أشبهت الفرائض فلاتبطل شفعته ولا خيار المحيرة ولايلزمه كمال المهر بالانتقال إلى الشفع الثاني منها لعدم صحة الخلوة بدخولها في الشفع الأول ثم أتم الأربع كما في صلاة الظهر "بخلاف" الرباعيات "المندوبة" فيستفتح ويتعوذ ويصلي على النبي صلى الله عليه وسلم في ابتداء كل شفع منها وقال في شرح المنية: مسألة الاستفتاح ونحوه ليست مرويةً عن المتقدمين من الأئمة وإنما هي اختيار بعض المتأخرين. 

( كتاب الصلاة، فصل في بيان النوافل، ١/ ٣٩١، ٣٩٢)

تنویر الأبصار مع  الدر المختارمیں ہے:

وَلَا يُصَلَّى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَعْدَةِ الْأُولَى فِي الْأَرْبَعِ قَبْلَ الظُّهْرِ وَالْجُمُعَةِ وَبَعْدَهَا) وَلَوْ صَلَّى نَاسِيًا فَعَلَيْهِ السَّهْوُ، وَقِيلَ: لَا، شُمُنِّيٌّ (وَلَا يَسْتَفْتِحُ إذَا قَامَ إلَى الثَّالِثَةِ مِنْهَا) لِأَنَّهَا لِتَأَكُّدِهَا أَشْبَهَتْ الْفَرِيضَةَ (وَفِي الْبَوَاقِي مِنْ ذَوَاتِ الْأَرْبَعِ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ) صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (وَيَسْتَفْتِحُ) وَيَتَعَوَّذُ وَلَوْ نَذْرًا لِأَنَّ كُلَّ شَفْعٍ صَلَاةٌ (وَقِيلَ:) لَا يَأْتِي فِي الْكُلِّ وَصَحَّحَهُ فِي الْقُنْيَةِ.

فتاوى  شامیمیں ہے:

(قَوْلُهُ: وَلَا يُصَلِّي إلَخْ) أَقُولُ: قَالَ فِي الْبَحْرِ فِي بَابِ صِفَةِ الصَّلَاةِ: إنَّ مَا ذَكَرَ مُسَلَّمٌ فِيمَا قَبْلَ الظُّهْرِ، لِمَا صَرَّحُوا بِهِ مِنْ أَنَّهُ لَا تَبْطُلُ شُفْعَةُ الشَّفِيعِ بِالِانْتِقَالِ إلَى الشَّفْعِ الثَّانِي مِنْهَا، وَلَوْ أَفْسَدَهَا قَضَى أَرْبَعًا، وَالْأَرْبَعُ قَبْلَ الْجُمُعَةِ بِمَنْزِلَتِهَا. وَأَمَّا الْأَرْبَعُ بَعْدَ الْجُمُعَةِ فَغَيْرُ مُسَلَّمٍ فَإِنَّهَا كَغَيْرِهَا مِنْ السُّنَنِ، فَإِنَّهُمْ لَمْ يُثْبِتُوا لَهَا تِلْكَ الْأَحْكَامَ الْمَذْكُورَةَ اهـ وَمِثْلُهُ فِي الْحِلْيَةِ، وَهَذَا مُؤَيِّدٌ لِمَا بَحَثَهُ الشُّرُنْبُلَالِيُّ مِنْ جَوَازِهَا بِتَسْلِيمَتَيْنِ لِعُذْرٍ. (قَوْلُهُ: وَلَوْ نَذْرًا) نَصَّ عَلَيْهِ فِي الْقُنْيَةِ، وَوَجْهُهُ أَنَّهُ نَفْلٌ عَرَضَ عَلَيْهِ الِافْتِرَاضُ أَوْ الْوُجُوبُ أَفَادَهُ ط. (قَوْلُهُ: لِأَنَّ كُلَّ شَفْعٍ صَلَاةٌ) قَدَّمْنَا بَيَانَ ذَلِكَ فِي أَوَّلِ بَحْثِ الْوَاجِبَاتِ، وَالْمُرَادُ مِنْ بَعْضِ الْأَوْجُهِ كَمَا يَأْتِي قَرِيبًا (قَوْلُهُ: وَقِيلَ: لَا إلَخْ) قَالَ فِي الْبَحْرِ: وَلَايَخْفَى مَا فِيهِ وَالظَّاهِرُ الْأَوَّلُ. زَادَ فِي الْمِنَحِ وَمِنْ ثَمَّ عَوَّلْنَا عَلَيْهِ وَحَكَيْنَا مَا فِي الْقُنْيَةِ بِقِيلَ. مَطْلَبٌ: قَوْلُهُمْ كُلُّ شَفْعٍ مِنْ النَّفْلِ صَلَاةٌ لَيْسَ مُفْرَدًا. [تَنْبِيهٌ] بَقِيَ فِي الْمَسْأَلَةِ قَوْلٌ ثَالِثٌ جَزَمَ بِهِ فِي مُنْيَةِ الْمُصَلِّي فِي بَابِ صِفَةِ الصَّلَاةِ حَيْثُ قَالَ: أَمَّا إذَا كَانَتْ سُنَّةً أَوْ نَفْلًا فَيَبْتَدِئُ كَمَا ابْتَدَأَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى، يَعْنِي يَأْتِي بِالثَّنَاءِ وَالتَّعَوُّذِ لِأَنَّ كُلَّ شَفْعٍ صَلَاةٌ عَلَى حِدَةٍ اهـ لَكِنْ قَالَ شَارِحُهَا: الْأَصَحُّ أَنَّهُ لَا يُصَلِّي وَلَا يَسْتَفْتِحُ فِي سُنَّةِ الظُّهْرِ وَالْجُمُعَةِ، وَكَوْنُ كُلِّ شَفْعٍ صَلَاةً عَلَى حِدَةٍ لَيْسَ مُطَّرِدًا فِي كُلِّ الْأَحْكَامِ، وَلِذَا لَوْ تَرَكَ الْقَعْدَةَ الْأُولَى لَا تَفْسُدُ خِلَافًا لِمُحَمَّدٍ. وَلَوْ سَجَدَ لِلسَّهْوِ عَلَى رَأْسِ شَفْعٍ لَا يُبْنَى عَلَيْهِ شَفْعًا آخَرَ لِئَلَّا يَبْطُلَ السُّجُودُ بِوُقُوعِهِ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ، فَقَدْ صَرَّحُوا بِصَيْرُورَةِ الْكُلِّ صَلَاةً وَاحِدَةً حَيْثُ حَكَمُوا بِوُقُوعِ السُّجُودِ وَسَطًا، فَيُقَالُ هُنَا أَيْضًا: لَايُصَلِّي وَلَايَسْتَفْتِحُ وَلَايَتَعَوَّذُ لِوُقُوعِهِ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ لِأَنَّ الْأَصْلَ كَوْنُ الْكُلِّ صَلَاةً وَاحِدَةً لِلِاتِّصَالِ وَاتِّحَادِ التَّحْرِيمَةِ، وَمَسْأَلَةُ الِاسْتِفْتَاحِ وَنَحْوِهِ لَيْسَتْ مَرْوِيَّةً عَنْ الْمُتَقَدِّمِينَ وَإِنَّمَاهِيَ اخْتِيَارُ بَعْضِ الْمُتَأَخِّرِينَ، نَعَمْ اعْتَبَرُوا كَوْنَ كُلِّ شَفْعٍ صَلَاةً عَلَى حِدَةٍ فِي حَقِّ الْقِرَاءَةِ احْتِيَاطًا، وَكَذَا فِي عَدَمِ لُزُومِ الشَّفْعِ الثَّانِي قَبْلَ الْقِيَامِ إلَيْهِ لِتَرَدُّدِهِ بَيْنَ اللُّزُومِ وَعَدَمِهِ فَلَايَلْزَمُ بِالشَّكِّ وَلِذَا يَقْطَعُ عَلَى رَأْسِ الشَّفْعِ إذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ أَوْ خَرَجَ الْخَطِيبُ وَكَذَا فِي بُطْلَانِ الشُّفْعَةِ وَخِيَارِ الْمُخَيَّرَةِ بِالشُّرُوعِ فِي الشَّفْعِ الْآخَرِ لِأَنَّ كُلًّا مِنْ الشُّفْعَةِ وَالْخِيَارِ مُتَرَدِّدٌ بَيْنَ الثُّبُوتِ وَعَدَمِهِ فَلَايَثْبُتُ بِالشَّكِّ وَكَذَا فِي عَدَمِ سَرَيَانِ الْفَسَادِ مِنْ شَفْعٍ إلَى شَفْعٍ إذْ لَايُحْكَمُ بِالْفَسَادِ مَعَ الشَّكِّ اهـ مُلَخَّصًا، لَكِنَّ قَوْلَهُ: وَكَذَا فِي بُطْلَانِ الشُّفْعَةِ وَخِيَارِ الْمُخَيَّرَةِ غَيْرُ صَحِيحٍ، لِمَا عَلِمْت مِمَّا قَدَّمْنَاهُ آنِفًا عَنْ الْبَحْرِ وَالْحِلْيَةِ مِنْ أَنَّهُمَا لَايَبْطُلَانِ بِالِانْتِقَالِ إلَى الشَّفْعِ الثَّانِي، وَقَدْ صَرَّحَ نَفْسُهُ بِذَلِكَ فِي مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ وَعَلِمْت أَيْضًا أَنَّ ذَلِكَ إنَّمَا ذَكَرُوهُ فِي سُنَّةِ الظُّهْرِ وَلَمْ يُثْبِتُوهُ لِلْأَرْبَعِ الَّتِي بَعْدَ الْجُمُعَةِ.

( كتاب الصلاة، باب الوتر و النوافل، ٢/ ١٦، ١٧)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144111201178

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں