بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قعدہ اخیرہ میں مسنون دعائیں پڑھنا


سوال

کیا فرض نماز میں جماعت کے ساتھ یا بغیر جماعت کے آخری تشہد میں درود شریف کے بعد دعا "اَللّٰهُمَّ اکْفِنِيْ بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَأَغْنِنِيْ بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ" پڑھ سکتا ہوں؟

جواب

قعدہ اخیرہ میں درود شریف کے بعد تمام نمازوں (فرض، سنت غیرہ) میں قرآن و حدیث میں منقول دعائیں پڑھ سکتے ہیں، جو دعا آپ نے سوال میں ذکر کی ہے یہ دعا پڑھنا بھی درست ہے، نیز ایک سے زیادہ دعائیں  پڑھنا یا ایک دعاکو تکرار کے ساتھ پڑھنا بھی درست ہے۔

البتہ قومہ، جلسہ، اور سجدہ وغیرہ کی دُعاؤں کے لیے    بہتر یہ ہے کہ یہ دعائیں نفل نماز میں پڑھی  جائیں، تاہم  اگر  فرض نماز  (کسی عذر کی وجہ سے) انفرادی طورپر پڑھی جائے  یا اگرکوئی شخص  مقتدی ہو اور امام جلسے میں اتنی دیر بیٹھے کہ دعا پڑھی جاسکتی ہو تو بھی یہ دعائیں آدمی پڑھ سکتاہے ۔

اور اگرکوئی شخص  امام ہو تو اسے اس بات  کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ طویل دعاؤں کی وجہ سے  مقتدیوں کو گرانی نہ ہو۔

البحرالرائق میں ہے :

"(قوله: ودعا بما يشبه ألفاظ القرآن والسنة لا كلام الناس) أي بالدعاء الموجود في القرآن، ولم يردحقيقة المشابهة ؛ إذ القرآن معجز لا يشابهه شيء، ولكن أطلقها ؛ لإرادته نفس الدعاء ، لا قراء ة القرآن، مثل: ﴿ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا ﴾ [البقرة: 286] ﴿ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبِنَا ﴾ [آل عمران: 8] ﴿ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ ﴾ [نوح: 28] ﴿ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ﴾ [البقرة: 201] إلى آخر كل من الآيات، وقوله: والسنة، يجوز نصبه عطفاً على ألفاظ أي دعا بما يشبه ألفاظ السنة، وهي الأدعية المأثورة، ومن أحسنها ما في صحيح مسلم: «اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات ومن فتنة المسيح الدجال»، ويجوز جره عطفاً على القرآن أو ما أي دعا بما يشبه ألفاظ السنة أو دعا بالسنة، وقد تقدم أن الدعاء آخرها سنة ؛ لحديث ابن مسعود: «ثم ليتخير أحدكم من الدعاء أعجبه إليه فيدعو به»". (1/ 349)

فتاوی شامی میں ہے :

"ولیس بینهما ذکر مسنون ... وماورد محمول علی النفل ... ثم الحمل المذکور صرح به المشائخ في الوارد في الرکوع والسجود ... وقال: إن ثبت في المکتوبة فلیکن في حالة الانفراد أو الجماعة والمامومون محصورون لایتثقلون بذلك ... الخ (شامی ،ج:۱، ص: ۵۰۹، ط: سعید)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200516

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں