امام صاحب آخری رکعت کے دو سجدوں کے بعد بیٹھے اور عبدہ ورسولہ تک پڑھنے کے بعد کھڑے ہو گئے،لیکن پورے کھڑے نہیں ہوئے، تقریباً درمیان میں ہی تھے کہ بیٹھ گئے اور فوراً سلام پھیر کر سجدہ سہو کر لیا، اس پر مقتدیوں کی طرف سے بے چینی بن گئی، ایک فریق کا کہنا ہے کہ امام صاحب نے ٹھیک کیا ہے، جب کہ دوسرا فریق کہتا ہے کہ مولانا کو دوبارہ عبدہ ورسولہ تک پڑھ کر ہی سلام پھیرنا چاہیے تھا ،آپ رہنمائی فرمائیں کون سا طریقہ درست اور افضل ہے ؟
اگر امام آخری رکعت کے دو سجدوں کے بعد تشہد میں بیٹھے اور التحیات مکمل کرنے کے بعداگلی رکعت کے لیے کھڑے ہوگئے ، کھڑے ہونے سے پہلے ہی تشہد میں بیٹھ کر انہوں نے التحیات پڑھے بغیر صرف سلام پھیر دیا تو ایسا کرنا درست تھا، ان کا یہی عمل درست اور افضل تھا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (2 / 87)
(وإن قعد في الرابعة) مثلا قدر التشهد (ثم قام عاد وسلم) ولو سلم قائما صح؛ ثم الأصح أن القوم ينتظرونه، فإن عاد تبعوه
و فی الرد:(قوله عاد وسلم) أي عاد للجلوس لما مر أن ما دون الركعة محل للرفض. وفيه إشارة إلى أنه لا يعيد التشهد، وبه صرح في البحر. قال في الإمداد: والعود للتسليم جالسا سنة، لأن السنة التسليم جالسا والتسليم حالة القيام غير مشروع في الصلاة المطلقة بلا عذر، فيأتي به على الوجه المشروع؛ فلو سلم قائما لم تفسد صلاته وكان تاركا للسنة اهـ. فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144007200151
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن