بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قطروں کی شکایت کی وجہ سے روزہ کی حالت میں نماز نہ پڑھنا


سوال

اگر کسی شخص کو قطروں کا مسئلہ ہو اور  وہ  روزے کی نیت سے سحری کرے اور افطاری کی نیت سے افطاری بھی کرے، اور روزے کے دوران نماز یا قرآن نہ پڑھے (پاکی یا ناپاکی کی وجہ سے) تو اس کا روزہ ہوجائے گا یا نہیں؟

جواب

مذکورہ شخص روزہ رکھ لیتا ہے تو اس کا روزہ کا فریضہ ادا ہو جائے گا؛ لیکن پنج وقتہ نماز فرض اور اسلام کا بنیادی رکن ہے، اسے چھوڑنا کبیرہ گناہ ہے، اگر روزہ رکھ کر فرض نماز ادا نہیں کرے گا تو سخت گناہ گار ہوگا، رمضان المبارک میں جیسے نیکیوں کا ثواب بڑھتاہے، گناہوں کی شدت بھی بڑھ جائے گی، لہٰذا مذکورہ شخص پر لازم ہے کہ وہ روزوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ نمازوں کا اہتمام بھی کرے، اور تلاوتِ قرآنِ کریم بھی کرے۔ البتہ مذکورہ شخص کے لیے طہارت کے حوالے سے احکام کی تفصیل درج ذیل ہے:

اگر کسی کو  پیشاب کے قطرے آنے کی ایسی بیماری ہو کہ کسی ایک نماز کے مکمل وقت میں پاک اور باوضو ہو کر اس وقت کی فرض نماز پڑھنے کا وقت بھی اس عذر کے بغیر  نہ ملے، یعنی درمیان میں اتنا وقفہ بھی نہیں ملتا کہ ایک وقت کی فرض نماز ادا کر سکے تو وہ  شرعاً معذور کہلائے گا، اور  شرعی معذور کا حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت وضو کرلیا کرے اور پھر اس وضو سے اس ایک وقت میں جتنی چاہے فرائض اور نوافل ادا کرے اور تلاوتِ قرآن کریم کرلے(خواہ اس ایک وقت کے درمیان میں جتنے بھی قطرے آجائیں، دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی) یہاں تک کہ وقت ختم ہوجائے، جیسے ہی اس فرض نماز کا وقت ختم ہوگا تو اس کا وضو بھی ختم ہوجائے گا اور پھر اگلی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔
اور اگر یہ قطرے کپڑوں پر لگے ہوئے ہوں تو اس صورت میں یہ دیکھا جائے گا کہ وہ کس تسلسل سے نکل رہے ہیں اگر اتنا بھی وقت نہ ملے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے کپڑے دھوکر بغیر قطرے نکلے نماز ادا کرسکتے، یعنی  دورانِ نماز قطرے  کپڑوں میں نکل آئیں تو اس صورت میں معذور پر ان قطروں کا دھونا واجب نہ ہوگا،  اگرچہ یہ قطرے مقدارِ درہم سے تجاوز کرجائیں، اور اگر اس کو یہ گمان ہے کہ قطرے  دھونے کے بعد  دورانِ نماز مزید نہ نکلیں گے تو اس صورت میں ان کا دھونا واجب ہوگا۔

اور اگر ان قطروں کے خارج ہونے میں مقدارِ نماز کے برابر تسلسل نہیں ہے یعنی   پیشاب کے قطرے کچھ دیر آنے کے بعد بند ہوجاتے ہیں یا درمیان میں اتنا وقفہ ہوجاتا ہے کہ جس میں فرض نماز ادا کی جاسکتی ہے  تو ایسا شخص شرعاً معذورین میں شامل نہیں ہیں۔ اس لیے اس  کا وضو اِن قطروں سے ٹوٹ جائے گا اور کپڑے بھی ناپاک ہوجائیں گے اور ان کا دھونا (جب کہ وہ مقدار درہم سے تجاوز کرجائیں) واجب ہوگا۔ اس صورت میں ایسا شخص  نماز سے کافی پہلے ہی پیشاب کر کے فارغ ہوجائے اور اس کے بعد پیشاب کے قطروں کے خارج ہونے تک انتظار کرے،  جب قطرے بند ہوجائیں اور اطمینان حاصل ہوجائے تو پھر اس کے بعد وضو کرکے نماز ادا کر لے۔ بہتر یہ ہوگا کہ نماز کے وقت کے لیے الگ کپڑا رکھے  اور دیگر اوقات کے لیے الگ کپڑا رکھے، پھر بھی اگر نماز کے وقت پہنے ہوئے کپڑوں میں قطرے نکل آئیں تو ان کو پاک کر لے،  الگ الگ کپڑوں کا انتظام مشکل ہو تو انڈرویئر میں ٹشو رکھ لیا کرے، اور نماز سے پہلے اسے نکال کر پانی سے صرف استنجا کرکے وضو کرکے نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد پیشاب کرکے دوبارہ ٹشو رکھ لیا کرے۔ 

بہرحال! کسی صورت میں نماز کا ترک کرنا درست نہیں ہے اور نماز کا چھوڑ دینا سخت گناہ اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے کا سبب ہے، لہذا  نماز ترک نہ کرے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200702

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں