بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک دفعہ نماز جنازہ ہونے کے بعد آبائی شہر میں دوبارہ نماز جنازہ پڑھانے اور چہرہ دیکھنے کا حکم


سوال

 ہم قطر میں رھتے ہیں ہمارے ایک دوست جو قطر میں رہتے ہیں وہ فوت ہوگۓ ہیں، اب ہم لوگ یہاں پر ان کی نمازجنازہ پڑھنا چاہتے ہیں اور پھر میت کو یہاں سے کشمیر لےجانا چاھتے ہیں اب وہاں پر لوگ ان کی دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا چاہتے ہیں اور نماز سے پہلے ان کا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں، تو کیا پہلی بار نماز جنازہ پڑھنے کے بعد ان کا چہرہ دوبارہ دیکھ سکتے ہیں؟اور دوبارہ نمازجنازہ پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ میت کے اولیاء  میں سے کسی ایک کی اجازت سے جنازہ کی نماز ادا ہو جانے کے بعد دوبارہ جنازہ کی نماز ادا کرنے کی شرعاً اجازت نہیں، چاہے دوسرے اولیاء نے نماز دا کی ہو یا نہ کی ہو، البتہ اگر پہلی مرتبہ جنازے کی نماز ولی کی اجازت و شرکت کے بغیر ہوئی ہو تو ایسی صورت میں میت کے ولی کو دوبارہ جنازہ کی نماز ادا کرنے کی اجازت ہوگی۔لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر میت کے اولیاء کشمیر میں ہیں تو یہاں قطر میں نماز جنازہ ادا کرنے کے بجائے صرف ایک بار کشمیر میں ہی نماز جنازہ ادا کی جائے، اگر قطر میں میت کے کسی ولی کی اجازت سے نماز جنازہ ادا کردی گئی تو پھر کشمیر میں دوبارہ نماز جنازہ ادا کرنا جائز نہیں ہوگا، البتہ اگر قطر میں میت کے ولی کی اجازت و شرکت کے بغیر  نماز جنازہ ادا کردی گئی تو پھر میت کے کشمیر پہنچنے کے بعد میت کے اولیاء کو دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے کا حق حاصل ہوگا، لیکن جو لوگ پہلے قطر میں جنازہ پڑھ چکے ہوں گے ان کے لئے دوسری بار اس جنازہ میں شرکت کرنا جائز نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ میت کو اسی علاقہ میں دفن کرنا مستحب ہے جہاں اس کی موت واقع ہوئی ہے، اگر دفن کرنے سے پہلے لاش میں بو پیدا ہوجانے کا اندیشہ نہ ہو تو ایک شہر سے دوسرے شہر یا ملک لے جانے میں مضائقہ نہیں ہے، لیکن اگر ایک شہر سے دوسرے شہر یا ملک لے جانے میں میت کے خراب ہونے کا خطرہ ہو تو مکروہ تحریمی ہے۔ بہرحال بہتر یہی ہے کہ میت کو تدفین کے لئے بلا ضرورت ایک شہر یا ملک سے دوسرے شہر یا ملک منتقل نہ کیا جائے، کیونکہ ایک تو تدفین میں تأخیر ہوتی ہے، دوسرا بہت زیادہ خرچہ اور مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے، اور جنازہ کی نماز میں تکرار کا سبب بھی بنتا ہے اور آبائی علاقے یا قبرستان کی الگ خصوصیت ہونے کی طرف اشارہ بھی ہوتا ہے، حالانکہ ایسی کوئی خصوصیت نہیں ہے، اس لئے جہاں موت واقع ہوئی ہو وہاں ہی مناسب جگہ پر دفن کرنا بہتر ہے۔

 باقی تدفین سے پہلے کسی بھی وقت میت کا چہرہ دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے چاہے نماز جنازہ ہوچکی  ہو یا نہ ہوئی ہو۔

فتاوی هنديه میں ہے:

"وَلَا يُصَلَّى عَلَى مَيِّتٍ إلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً وَالتَّنَفُّلُ بِصَلَاةِ الْجِنَازَةِ غَيْرُ مَشْرُوعٍ، كَذَا فِي الْإِيضَاحِ. وَلَا يُعِيدُ الْوَلِيُّ إنْ صَلَّى الْإِمَامُ الْأَعْظَمُ أَوْ السُّلْطَانُ أَوْ الْوَالِي أَوْ الْقَاضِي أَوْ إمَامُ الْحَيِّ؛ لِأَنَّ هَؤُلَاءِ أَوْلَى مِنْهُ وَإِنْ كَانَ غَيْرُ هَؤُلَاءِ لَهُ أَنْ يُعِيدَ، كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ. وَإِنْ صَلَّى عَلَيْهِ الْوَلِيُّ لَمْ يَجُزْ لِأَحَدٍ أَنْ يُصَلِّيَ بَعْدَهُ وَلَوْ أَرَادَ السُّلْطَانُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ فَلَهُ ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ مُقَدَّمٌ عَلَيْهِ، وَلَوْ صَلَّى عَلَيْهِ الْوَلِيُّ وَلِلْمَيِّتِ أَوْلِيَاءُ أُخَرُ بِمَنْزِلَتِهِ لَيْسَ لَهُمْ أَنْ يُعِيدُوا، كَذَا فِي الْجَوْهَرَةِ النَّيِّرَةِ. فَإِنْ صَلَّى غَيْرُ الْوَلِيِّ أَوْ السُّلْطَانِ أَعَادَ الْوَلِيُّ إنْ شَاءَ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ".

( كتاب الصلاة، الباب الحادي و العشرون في الجنائز، الْفَصْلُ الْخَامِسُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْمَيِّتِ، ١/ ١٦٣ - ١٦٤

مراقي الفلاح مع حاشية الطحطاويمیں ہے:

"فإن صلى غيره" أي غير من له حق التقدم بلا إذن ولم يقتد به "أعادها" هو "إن شاء" لعدم سقوط حقه وإن تأدى الفرض بها "ولا" يعيد "معه" أي مع من له حق التقدم "من صلى مع غيره" لأن التنفل بها غير مشروع  قوله: "فإن صلى غيره الخ" شمل ما إذا صلى عليه ولى القرابة وأراد السلطان أن يصلي عليه فله ذلك لأنه مقدم عليه كما في الجوهرة يعني إذا كان حاضرا وقت الصلاة ولم يصل مع الولي ولم يأذن لاتفاق كلمتهم على أنه لا حق للسلطان عند عدم حضوره نهر قوله: "بلا إذن ولم يقتد به" أما إذا أذن له أو لم يأذن ولكن صلى خلفه فليس له أن يعيد لأنه سقط حقه بالأذن أو بالصلاة مرة وهي لا تتكرر ولو صلى عليه الولي وللميت أولياء آخرون بمنزلته ليس لهم أن يعيدوا لأن ولاية الذي صلى متكاملة".

( حاشية الطحطاوي علي المراقي ،كتاب الصلاة، باب أحكام الجنائز، فصل بعد فصل، ص: ٥٩١)

تنویر الابصار مع الدر المختارمیں ہے:

"(فَإِنْ صَلَّى غَيْرُهُ) أَيْ الْوَلِيِّ (مِمَّنْ لَيْسَ لَهُ حَقُّ التَّقْدِيمِ) عَلَى الْوَلِيِّ (وَلَمْ يُتَابِعْهُ) الْوَلِيُّ (أَعَادَ الْوَلِيُّ) وَلَوْ عَلَى قَبْرِهِ قُلْنَا: لَيْسَ لِمَنْ صَلَّى عَلَيْهَا أَنْ يُعِيدَ مَعَ الْوَلِيِّ لِأَنَّ تَكْرَارَهَا غَيْرُ مَشْرُوعٍ (وَإِلَّا) أَيْ وَإِنْ صَلَّى مَنْ لَهُ حَقُّ التَّقَدُّمِ كَقَاضٍ أَوْ نَائِبِهِ أَوْ إمَامِ الْحَيِّ أَوْ مَنْ لَيْسَ لَهُ حَقُّ التَّقَدُّمِ وَتَابَعَهُ الْوَلِيُّ (لَا) يُعِيدُ لِأَنَّهُمْ أَوْلَى بِالصَّلَاةِ مِنْهُ. (وَإِنْ صَلَّى هُوَ) أَيْ الْوَلِيُّ (بِحَقٍّ) بِأَنْ لَمْ يَحْضُرْ مَنْ يُقَدَّمُ عَلَيْهِ (لَا يُصَلِّي غَيْرُهُ بَعْدَهُ) وَإِنْ حَضَرَ مَنْ لَهُ التَّقَدُّمُ لِكَوْنِهَا بِحَقٍّ".

(شامي، كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، مطلب تعظيم اولي الامر واجب، ٢/ ٢٢٢ - ٢٢٣)

فتاوی شامی میں ہے:

ولا بأس بنقله قبل دفنه 

(قوله ولا بأس بنقله قبل دفنه) قيل مطلقا، وقيل إلى ما دون مدة السفر، وقيده محمد بقدر ميل أو ميلين لأن مقابر البلد ربما بلغت هذه المسافة فيكره فيما زاد. قال في النهر عن عقد الفرائد: وهو الظاهر اهـ

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، 2/ 239)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200264

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں