بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قضا نماز کی نیت اور اس میں اقامت کہنا


سوال

قضا نماز  کی نیت کیسے کریں اور اقامت بھی کہنا ہے یا نہیں؟

جواب

قضا نماز کی نیت کا طریقہ یہ ہے کہ  جس نماز کی قضا پڑھی جا رہی ہے اس کی مکمل تعیین کی جائے یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، مثلاً:  پچھلے جمعہ کے دن کی فجر  کی نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں, البتہ اگر یاد نہ ہونے یا فوت شدہ نمازیں زیادہ ہونے کی وجہ سے اس طرح متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلاً: جتنی فجر کی نمازیں قضاہوئی ہیں ان میں سے پہلی  فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں، یا مثلاً: جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر کی نماز ادا کر رہا ہوں, اسی طرح یوں بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ جتنی ظہر  کی نمازیں قضا ہوئیں ان میں سے سب آخری ظہر کی نماز ادا کررہاہوں۔

اور قضا شدہ نماز اگر ایک ہے تو  اس کو پڑھتے وقت اذان و اقامت پوری کہنا مسنون ہے چاہے باجماعت پڑھی جائے یا اکیلے پڑھی جائے، اگر ایک سے زائد ہیں تو سب سے پہلی نماز کے لیے اذان و اقامت دونوں کا کہنا مسنون ہے اور بقیہ میں اختیار ہے چاہے تو اذان واقامت دونوں کہے یا صرف اقامت پر اکتفا کرے، یہ اس وقت ہے جب ایک ہی مجلس میں ایک سے زائد نمازیں ادا کی جائیں، البتہ اگر ہر ایک نماز الگ مجلس میں ادا کرے تو پھر ہر ایک کے لیے اذان و اقامت کہنا مسنون ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 76):

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره".

"(قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأنّ فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً أو يقول: آخر فجر، فإنّ ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت".

الفتاوى الهندية (1 / 55):
"ومن فاتته صلاة في وقتها فقضاها أذن لها وأقام واحدًا كان أو جماعةً، هكذا في المحيط.

وإن فاتته صلوات أذن للأولى وأقام وكان مخيرًا في الباقي إن شاء أذن وأقام وإن شاء اقتصر على الإقامة، كذا في الهداية. وإن أذن وأقام لكل صلاة فحسن ليكون القضاء على سنن الأداء، كذا في الكافي، وهكذا في شرح المبسوط للإمام السرخسي. والتخيير في البواقي إنما هو إذا قضاها في مجلس واحد، أما إذا قضاها في مجالس فيشترط كلاهما، هكذا في البحر الرائق. والضابطة عندنا أن كل فرض أداءً كان أو قضاءً يؤذن له ويقام، سواء أداه منفردًا أو بجماعة إلا الظهر يوم الجمعة في المصر، فإن أداءه بأذان وإقامة مكروه، كذا في التبيين". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200400

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں