بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر گاڑی فروخت کرنے والا قسطوں کے مکمل ہونے سے پہلے کن شرائط کے ساتھ وہ گاڑی دوبارہ خریدسکتا ہے؟


سوال

ہم گاڑیاں قسطوں پر فروخت کرتے ہیں، ایک نیو گاڑی جس کی کل قیمت 800000 ہے جس ایڈوانس کی مد میں کچھ لوگ اپنی گاڑی یا نقد منقولہ 300000 ادا کر تے ہیں اور باقی رقم 12 ماہ یا اس سے زائد وقت پر فروخت کرتے ہیں، کچھ لوگ اپنی گاڑی وقت سے پہلے ہمیں واپس فروخت کرنے آتے ہیں جس پر ہمارے  بقایاجات ہیں، اس نیو گاڑی کی قیمت 6یا 10 ماہ قبل اور تھی اور اب استعمال ہونے کے بعد  کم یا زیادہ ہے۔

 اب ہم اس کو کن شرائط پرخرید سکتے ہیں، اکثر نئی گاڑی استعمال ہونے کے بعد قمیت کم کرتی ہے اور دوسرا مسئلہ  یہ ہے کہ ہم استعمال شدہ گاڑیاں بھی قسطوں پر فروخت کرتے ہیں، ایڈوانس کی مد میں ہم خریدنے والے سے گاڑی ایک قیمت طے ہونے پر یا لم سم لیتے ہیں اور بقیہ رقم 12 ماہ قسطوں پر دے دیتے ہیں، اس پر ہمارے بقایاجات ہوں، اس نے اسے کچھ عرصہ استعمال کیا، اب وہ وقت سے پہلے ہمیں واپس دے تو ہم کن شرائط پر خریداری کرسکتے ہیں؟

جواب

قسطوں پر گاڑی یا دیگر اشیاء کی خریدوفروخت چند شرائط کے ساتھ جائز ہے کہ قسط کی رقم متعین ہو، مدت متعین ہو، معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار، اور ایک شرط یہ بھی ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں کسی بھی عنوان سے اس میں اضافہ وصول نہ کیا جائے۔

قسطوں پر گاڑی خریدنے کے بعد خریدنے والا اس کا مالک بن جاتا ہے، اور اس کا ثمن خریدنے والے کے ذمہ دین ہوتا ہے، اگراس گاڑی  کی مکمل اقساط کی ادائیگی سے پہلے گاڑی فروخت کرنے والا دوبارہ  یہی گاڑی  لینا چاہے تو اس کی چند صورتیں ہیں:

(1)  قسطوں کی ادائیگی سے پہلے فروخت کرنے والے نے، گاڑی جتنے میں فروخت کی تھی اس سے کم قیمت پر خرید رہا ہے تو یہ صورت جائز نہیں ہے۔

(2) خریدار کی رضامندی سے اس گاڑی کو واپس کررہا ہے تو یہ”اقالہ“ ہے، جو  متعاقدین کے حق میں فسخِ بیع ہے ، لہذا جتنے میں فروخت کی تھی اتنے میں ہی واپس کرنا لازم ہوگی۔

(3) قسطوں کی ادائیگی سے پہلے فروخت کرنے والے نے، گاڑی جتنے میں فروخت کی تھی اس سےزیادہ  یا برابر  قیمت پر خرید رہا ہے تو یہ صورت جائز ہے۔

(4) فروخت کرنے والا خلافِ جنس سے اس کو خرید ے، مثلاً گاڑی پیسوں کے بدلے فروخت کی تھی اب واپس کوئی اور چیز دے کر لے تو یہ صورت بھی جائز ہے۔

(5) گاڑی میں کوئی عیب پیدا ہوگیا، یا کوئی نقصان ہوگیا ہو تو اس صورت میں اصل قیمت سے کم ، زیادہ، اور برابری تینوں صورتوں میں خریدنا جائز ہے۔

جن صورتوں میں فروخت کرنے والے  کے لیے گاڑی لیناجائز ہے، ان میں یہ شرط بھی ہے کہ قسطوں پر گاڑی خریدنے والے نے اس پر قبضہ کرلیا ہو، اس لیے کہ منقولی چیز  کی بیع قبضہ سے پہلے جائز نہیں ہے۔

باقی گاڑی کی قیمت کم ہوجانا یہ عیب میں شمار نہیں ہوتا۔ 

اگر گاڑی میں کوئی عیب بھی پیدا نہ ہو،  لیکن مارکیٹ میں اس کی قیمت کم ہوگئی ہو اور قسطیں مکمل ہونے سے پہلے خریدنے والا اس کو فروخت کرنے والے کو واپس کرنا چاہے  تو  چوں کہ فروخت کرنے  والا  کم قیمت میں اس کو خرید نہیں سکتا ،  اس لیے اس کے متبادل دو صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں:

(1)   فروخت کرنے والا خلافِ جنس سے اس گاڑی کو  خرید لے، اور دو مختلف ملکوں کی کرنسیاں دو الگ جنس شمار ہوتی ہیں، لہذا اگرگاڑی پاکستانی روپے کے بدلے فروخت کی تھی اب واپس خریدتے وقت ڈالر یا ریال یا کسی اور کرنسی میں سودا کرلے۔

(2) قسطوں پر فروخت کرنے والا اس گاڑی والے کو  اتنی رقم قرض دے دے جس سے وہ مزید قسطیں ادا کردے، پھر  گاڑی کا مالک اس قرض سے اپنی قسطیں مکمل ادا کردے، یوں ایک معاملہ ختم ہوجائے گا،  اس کے بعد الگ سے معاملہ کرکے  دکان دار اس گاڑی کو  واپس خریدلے اور اس کی قیمت میں سے اپنا قرض منہا کرلے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 73):

"(و) فسد (شراء ما باع بنفسه أو بوكيله) من الذي اشتراه ولو حكما كوارثه (بالأقل) من قدر الثمن الأول (قبل نقد) كل (الثمن) الأول. صورته: باع شيئاً بعشرة ولم يقبض الثمن ثم شراه بخمسة لم يجز وإن رخص السعر للربا خلافاً للشافعي (وشراء من لاتجوز شهادته له) كابنه وأبيه (كشرائه بنفسه) فلا يجوز أيضاً خلافاً لهما في غير عبده ومكاتبه (ولابد) لعدم الجواز (من اتحاد جنس الثمن) وكون المبيع بحاله (فإن اختلف) جنس الثمن أو تعيب المبيع (جاز مطلقاً)كما لو شراه بأزيد أو بعد النقد.

(قوله: وفسد شراء ما باع إلخ) أي لو باع شيئاً وقبضه المشتري ولم يقبض البائع الثمن فاشتراه بأقل من الثمن الأول لايجوز زيلعي: أي سواء كان الثمن الأول حالاً أو مؤجلاً هداية، وقيد بقوله: وقبضه؛ لأن بيع المنقول قبل قبضه لايجوز ولو من بائعه كما سيأتي في بابه، والمقصود بيان الفساد بالشراء بالأقل من الثمن الأول. قال في البحر: وشمل شراء الكل أو البعض. 

(قوله: جاز مطلقاً) أي سواء كان الثمن الثاني أقل من الأول أو لا؛ لأن الربح لايظهر عند اختلاف الجنس. اهـ منح؛ ولأن المبيع لو انتقص يكون النقصان من الثمن في مقابلة ما نقص من العين سواء كان النقصان من الثمن بقدر ما نقص منها أو بأكثر منه بحر عن الفتح (قوله: كما لو شراه إلخ) تشبيه في الجواز مع قطع النظر عن قوله مطلقاً (قوله: بأزيد أو بعد النقد) ومثل الأزيد المساوي كما في الزيلعي، وهذا قول المصنف بالأقل قبل نقد الثمن"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201590

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں