بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر پلاٹ خرید کر اس پر تعمیراتی کام شروع کراکر قسطوں پر فروخت کرنا / فلیٹ اور مکان کی بکنگ


سوال

ایک پلاٹ جس کی کل قیمت چھ کروڑ ہے،  اور اس پر پلازہ بنانے کی لاگت آٹھ کروڑ ہے،  پلاٹ کے تین کروڑ دے کر قبضہ اور تعمیر کی اجازت مل جاتی ہے، باقی رقم تین سال کی اقساط میں دینی ہے، اگر میرے پاس کل پانچ کروڑ ہوں اور میں پلاٹ کا قبضہ لے کر اس پر تعمیراتی کام شروع کر دوں اور اس کو اقساط پر بیچ کر لوگوں کی قسطوں اور ایڈوانس رقم سے پلازہ مکمل کروں اور پلاٹ کی بقایا رقم ادا کروں تو کیا یہ کاروبار جائز ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  پلاٹ کے مالک سے باقاعدہ پلاٹ خرید لینے کے بعد آپ اس کے مالک ہوگئے ہیں، چاہے یہ سودا نقد کیا گیا ہو یا قسطوں کی صورت میں،  اور پلاٹ کی بقایا قسطیں آپ کے ذمہ واجب الادا،  دین (قرض) ہیں۔  اب اس پلاٹ میں آپ مالکانہ تصرف کرسکتے ہیں، لہذا اگر  آپ  اس کو  دوسرے لوگوں  کو  نقد یا قسط وار فروخت کرکے ان سے رقم لے کر اس پلاٹ کی بقایا قسطیں ادا کریں تو شرعاً یہ جائز ہے۔

تاہم  اس پلاٹ پر پلازہ کا منصوبہ بناکر دوسرے لوگوں کو فروخت کرنے میں یہ بات ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ اگر اس پلاٹ میں ابھی تک پلازہ بنا نہیں ہے تو اس کی دکانیں یا مکانات جو صرف نقشے کی حد تک ہیں اس کا باقاعدہ سودا کرنا درست نہیں ہوگا، کیوں کہ جو چیز ملکیت میں نہ ہو اور معدوم ہو اس کو فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، اب اس کی دو صورتیں ہیں:

(1) ایک یہ ہے کہ جو مکان یا دکان آپ لوگوں کو دے رہے ہیں اس کا کچھ نہ کچھ اسٹرکچر یعنی بنیادی ڈھانچا  بن چکا ہو تو اس کا سودا کیا جاسکتا ہے۔

(2) جس دکان یا مکان کا ڈھانچہ بھی نہ بنا مثلاً ابھی ایک منزل بھی نہیں بنی اور چوتھی یا پانچوں منزل کی دکانیں یا مکانات بیچ رہے ہیں تو یہ بیع جائز نہیں ہے، اس صورت میں آپ ان سے وعدہ بیع کرلیں یعنی صرف بکنگ کرلیں کہ مثلاً  فلاں مکان آپ کو فروخت کیا جائے گا، اور اس بکنگ کی مد میں اس سے ایڈوانس رقم بھی لیں تو یہ جائز ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(وهما عبارة عن كل لفظين ينبئان عن معنى التملك والتمليك ماضيين، كبعت واشتريت  أو حالين) كمضارعين لم يقرنا بسوف والسين كأبيعك فيقول أشتريه أو أحدهما ماض والآخر حال. (و) لكن (لا يحتاج الأول إلى نية بخلاف الثاني) فإن نوى به الإيجاب للحال صح على الأصح وإلا لا إذا استعملوه للحال كأهل خوارزم فكالماضي وكأبيعك الآن لتمحضه للحال، وأما المتمحض للاستقبال فكالأمر لايصح أصل (قوله: للحال) أي ولايستعملونه للوعد والاستقبال ط". (4/ 510، کتاب البیوع، ط: سعید)

         وفیہ ایضا:

"ولو أعطاه الدراهم، وجعل يأخذ منه كل يوم خمسة أمنان ولم يقل في الابتداء اشتريت منك يجوز وهذا حلال وإن كان نيته وقت الدفع الشراء؛ لأنه بمجرد النية لاينعقد البيع، وإنما ينعقد البيع الآن بالتعاطي والآن المبيع معلوم فينعقد البيع صحيحاً. قلت: ووجهه أن ثمن الخبز معلوم فإذا انعقد بيعاً بالتعاطي وقت الأخذ مع دفع الثمن قبله، فكذا إذا تأخر دفع الثمن بالأولى". (4/ 516، کتاب البیوع، مطلب البیع بالتعاطی،  ط: سعید)۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200248

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں