بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر خریدی گئی دکان پر زکاۃ کا حکم


سوال

الحمدللہ میں صاحبِ نصاب ہوں اور سونے اور نقدی پر زکاۃ ادا کرتا ہوں۔ میں نے ایک پلازہ میں دکان بک کرائی تھی اور اور ۴۸ قسطوں میں سی ۴۴ ادا کر چکا ہوں، مگر ابھی تک مجھے دکان کا قبضہ نہیں ملا۔ ارادہ تھا کہ یا تو اس دکان پر خود کاروبار کروں گا یا بیچ دوں گا، میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھے ادا شدہ رقم پر پر زکاۃ دینی ہے یا نہیں؟  کیوں کہ ابھی پلازہ مکمل نہیں ہوا، اس لیے موجودہ مارکیٹ ویلیو کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

جواب

مکان و دکان پر زکاۃ  کے وجوب سے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ جو دکان و مکان اس نیت سے خریدی جائے کہ اس کو بیچ کر اس سے نفع کمایا جائے گا تو اس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے اور جس دکان کو اپنے کاروبار کرنے کی نیت سے خریدا جائے تو اس پر زکاۃ واجب نہیں ہوتی۔ 

لہذا آپ نے جو دکان خریدی ہے اب اگر اس دکان میں آپ کا اپنا کام کرنے کا ارادہ ہے تو اس پر زکاۃ واجب نہیں اور اگر متعینہ طور پر اس کو بیچ دینے کا ارادہ ہے تو اس پر زکاۃ واجب ہو گی۔

اور زکاۃ  کے واجب ہونے کی صورت میں مذکورہ دکان  کی جتنی قسطیں رواں سال ادا کرنا طے ہیں، انہیں منہا کرنے کے بعد دکان کی موجودہ قیمت کے اعتبار سے زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔ مارکیٹ ویلیو  کا اندازا لگانا  گو مشکل ہے، لیکن ناممکن نہیں ہے، اہلِ تجربہ اور مذکورہ پلازہ کی ڈیلنگ کرنے والے ایجنٹس سے اس کا کچھ نہ کچھ  اندازا لگایا جا سکتا ہے، اس لیے اس کو  معلوم کر کے زکاۃ  ادا کی جائے۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (2/ 247):
"وإذا اشترى عرضاً بدراهم أو دنانير، فالمشترى لايصير للتجارة؛ إلا إذا نوى التجارة، وإذا اشترى عرضاً بعرض التجارة، فالمشترى يكون للتجارة نوى التجارة أو لم ينو شيئاً".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200967

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں