بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر ادھار کے ساتھ حج یا عمرہ کا حکم


سوال

حج یا عمرہ بالتقسیط جائز ہے یا نہیں؟ مثلاً  کسی ٹریول ایجنسی کا کسی شخص کو قسطوں میں ادھار کی ادائیگی کے ساتھ حج یا عمرہ کرانے کے عوض زیادہ رقم وصول کرناہے؟ 

جواب

حج  کی فرضیت کے لیے استطاعت بنیادی شرط ہے، یعنی آنے جانے کے سفری اخراجات اور اس دوران اہل وعیال کے خرچ پر قدرت ہو، اگر کسی شخص کی اتنی استطاعت نہ ہو تو اس پر شرعاً حج فرض نہیں، البتہ اگر  کوئی شخص حج یا عمرہ کی ادائیگی کے لیے قسطوں پر ادائیگی کے ارادے  کے ساتھ قرض لے کر حج یا عمرے پر جائے اور اسے اس قرض کی ادائیگی کا اطمینان ہو تو اس نیک نیت سے قسطوں پر قرض لے کر حج یا عمرے پر جانا جائز ہے اور اس ادھار میں ٹریول ایجنٹ کا کچھ زیادہ لے لینا بھی جائز ہے۔ البتہ مجموعی رقم اور قسطیں پہلی سے طے کرلی جائیں، قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے اس میں اضافہ وصول نہ کیا جائے۔

قال في الدر: "وقالوا لو لم يحج حتى أتلف ماله وسعه أن يستقرض ويحج ولو غير قادر على وفائه ويرجى أن لا يؤاخذه الله بذلك، أي لو ناويا وفاء إذا قدر كما قيده في الظهيرية". 

وفي الرد:

" (قوله وسعه أن يستقرض إلخ) أي جاز له ذلك وقيل يلزمه الاستقراض كما في لباب المناسك قال منلا على القاري في شرحه عليه، وهو رواية عن أبي يوسف وضعفه ظاهر فإن تحمل حقوق الله تعالى أخف من ثقل حقوق العباد اهـ.
قلت: وهذا يرد على القول الأول أيضا إن كان المراد بقوله ولو غير قادر على وفائه أن يعلم أنه ليس له جهة وفاء أصلا أما لو علم أنه غير قادر في الحال وغلب على ظنه أنه لو اجتهد قدر على الوفاء فلايرد". (الدر مع الرد: ٢/ ٤٥٧) 

"قال الخطيب الشربيني: إنما يجوز الاقتراض لمن علم من نفسه القدرة على الوفاء". (مغني المحتاج: ٢/ ١٥٣) فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144105200443

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں