ایک آدمی کاروبار کے لیے دوسرے شخص کو ایک لاکھ روپے دیتا ہے کہ کاروبار سے آنے والامنافع تقسیم کریں گے، لیکن دوسرا آدمی پیسے لے کر کاروبار بھی نہیں کرتا اور اصل رقم بھی واپس نہیں کررہا، حیلے بہانے سے کام لے رہا ہے تو کیا جس آدمی نے لاکھ روپے دیے ہیں اس پر ان ایک لاکھ کی زکاۃ واجب ہو گی؟
صورتِ مسئولہ میں کاروبار کے لیے دیے گئے ایک لاکھ روپے سے مذکورہ شخص کام بھی نہیں کررہا اور واپسی میں بھی ٹال مٹول کررہا ہے تو اس رقم کی زکاۃ کی ادائیگی فی الحال لازم نہیں ہے، بلکہ جب یہ رقم وصول ہوجائے تب اس کی ادائیگی لازم ہوگی، اور وصولی کے بعد گزشتہ عرصے کی بھی زکاۃ ادا کرنی ہوگی۔
الفتاوى الهندية (1/ 175):
"وفي مقر به تجب مطلقاً سواء كان ملياً أو معسراً أو مفلساً، كذا في الكافي. وإن كان الدين على مفلس فلسه القاضي فوصل إليه بعد سنين كان عليه زكاة ما مضى في قول أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى -، كذا في الجامع الصغير لقاضي خان". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008200891
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن