بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض کی ادائیگی سے متعلق چند سوالات


سوال

اکبر اور امجد دونو ں گہرے دوست تھے ، دونوں نے مل کر ایک اسکول اور ٹیوشن کا کام شروع کیااور طے شدہ معاہدہ کے تحت منافع لینا شروع کردیا۔ فروری 2004 سے مارچ 2009تک اکبر اپنے منافع کے حصے سے کم لیتا رہا اور باقی رقم امجد کی ضرورت کے پیش نظر اسے بطور قرضہ دیتا رہا جس کی مجموعی رقم 230000 روپےتک پہنچ گئی ، اسی دوران اکبر کی اسکول کے ایک ٹیچر سے رشتے کی بات طے ہونے لگی، جس کے نتیجے میں اکبر اور مذکورہ ٹیچر دیر تک اسکول اوقات میں باتوں میں مشغول میں رہتے ، جس سے اسکول کے ماحول میں خرابی پید ا ہونے لگی اورساتھ ہی اکبر کی کام میں دلچسپی کم ہونے لگی، وہ ٹھیک سے کام کے اوقات میں وقت نہیں دیتا تھا، اس وجہ سے اکبر اور امجد کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئےجس میں مذکورہ ٹیچر کابنیادی اور کلیدی کردار تھا اور آ خر اکبر سالانہ امتحان کے وقت 2009 میں کاروبار سے الگ ہو جاتا ہے،جس کی وجہ سے اسکول کو زبردست نقصان پہنچتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اکبر کاروبار سے اپنا حصہ طلب نہیں کرتا صرف مذکورہ وقت یعنی فروری 2004 سے مارچ 2009 تک امجد کو دیے گئے رقم کا مطالبہ کرتا ہے ۔ اب ان تمام صورتحال میں جواب طلب مسائل درج ذیل ہیں:

 1. کیا اکبر کی جانب سے دی گئی رقم قرض ہے؟ شرعی طور پر قرض کے کس معیار پر ہے؟ امجد کا کہناہے کہ رقم چونکہ کاروبار سے ملنے والے حصے میں سے اکبر نے دی تھی، اس لیے واپس بھی اسی صورت میں کرے گا جب باقی رہ جانے والے کاروبارسے فائدہ ہوگا اور بچت ہوگی، کیا امجد کایہ استدلال درست ہے؟امجد کا یہ کہناہے کہ کاروبار ختم ہوگیا تو رقم واپس کرنے کا ذمہ دار نہ ہوگا۔شرعی طور پر اس کا اس طرح کہنا کیا درست ہے؟ مذکورہ صورتحال میں امجد پر قرض کی ادائیگی کی ذمہ داری کس قدر عائد ہوتی ہے؟

2. امجد کا کہنا ہے  اگر ادائیگی کریگا تو بھی اتنی مدت میں کریگا جتنی مدت میں رقم لیا کرتا تھا۔شرعی طور پر اس کا اس طرح کہنا کیا درست ہے؟

3. اکبر کے کاروبار سے الگ ہوتے وقت اپنا حصہ نہ لینا احسان کی صورت ہےیا نہیں؟

 4. اکبر کے 2009 میں کاروبار سے الگ ہونے کے بعد اب 2015 میں جاکرمذکورہ کاروبار اگرختم ہوجاتا ہے توکیا شرعی طور پر اس کی ذمہ داری اکبر پر عائد ہوتی ہے کہ نہیں ؟اگر ہوتی ہے تو امجد قرض اداکرنے کا ذمے دار ہے کہ نہیں؟

5. اکبر نے چونکہ  کاروبار میں دلچسپی نہ لےکر اور مذکورہ ٹیچر کے ساتھ مل کر منفی رویہ ختیار کرتے ہوئےکاروبار کو نقصان پہنچایاجب کہ اکبر خود کاروبار میں حصے دار ہے ،اس لیے امجد کا دعویٰ ہے کہ قرض ادا کرنے کی ذمے داری اس پر عائد نہیں ہوتی ۔شرعی طور پر اس دعوے کی کیا حثیت ہے؟

6. بار بار اور انتہائی ضرورت کے وقت اکبر کے مطالبے پر بھی امجد سنجیدگی سے قرض کی ادائیگی نہ کرے تو شریعت کا اس پر کیا کہنا ہے؟ کیا دائن کی جانب سےقرض کی ادائیگی کا مطالبہ نہ کرنے پر مقروض اول یہ سمجھے کہ دائن کو پیسے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے قرض کی ادائیگی بھی ضروری نہیں ہے، دوم یہ کہ دائن  مطالبہ نہیں کرتاتو میں (مقروض )کیوں فکر کروں؟ سوم یہ کہ دائن  نے قرض معاف کردیا ہے تب ہی وہ مطالبہ نہیں کرتا۔شرعی طورپر ان مفروضات کی کیا حیثیت ہے؟

جواب

1-6۔مذکورہ صورت میں تحریرکردہ وضاحت سے یہی معلوم ہوتاہے کہ مذکورہ شراکتی کاروبارمیں سے اکبرنے امجدکوجورقم دی ہے وہ اپنے حصے میں سے دی ہے اوراس صراحت کے ساتھ دی ہے کہ یہ قرض ہے۔لہذا اگرچہ وہ رقم مشترکہ کاروبارسے حاصل ہوئی ہے لیکن چونکہ اس مالک اکبرتھااورامجدکوبطورقرض کے دی گئی ہے،اس لیے امجدشرعاً مقروض کہلائے گااوراس پرلازم ہے کہ قرض کی رقم دائن اکبرکوواپس لوٹائے۔قرض کے معاملے میں باوجودسہولت اورادائیگی کی طاقت کے ٹال مٹول سے کام لیناسخت گناہ اورظلم کی بات ہے،قرض کامعاملہ سنگین ہے جلدسے جلداس بوجھ سے سکبدوش ہونے کی فکراورکوشش کرنی چاہیے،نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کوناقابل معافی گناہ بتلایاہے اورکبھی ایسابھی ہواکہ کسی میت سے متعلق آپ کومعلوم ہواکہ اس پرکسی کاقرضہ ہے جس کواس نے ادانہیں کیاہے توآپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی نمازجنازہ پڑھنے سے انکارفرمادیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالدارآدمی کاقرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لینے کوظلم قراردیاہے۔لہذا اگردائن مطالبہ نہ بھی کرے جب تک کہ دائن صراحتاً معاف نہیں کردیتاقرض کابوجھ انسان پررہتاہے،حتی الامکان قرض کی واپسی جلدکردینی چاہیے،البتہ اگرمقروض کے پاس فوراً اداکرنے کی استطاعت نہیں ہے تواسے مہلت دینابھی ثواب کاباعث ہے تاکہ وہ سہولت سے قرض کی ادائیگی کاانتظام کرسکے۔

2۔حسب سہولت قرض کی ادائیگی جلدکردینی چاہیے جیساکہ اوپرذکرکردیاگیا،امجدکایہ کہناکہ جتنی مدت میں قرض لیااتنی ہی مدت میں لوٹاؤں گایہ استدلال درست نہیں۔

3۔قرض کی رقم کے علاوہ اگراکبرنے کاروبارسے الگ ہوتے وقت اگراپناحصہ صراحتاً چھوڑدیاہے تواحسان ہے اوراگراس کی رقم کاروبارمیں لگی ہے اورالگ ہوتے وقت واپسی کامطالبہ کرتاہے توواپس لوٹانی لازم ہے۔

4-5۔اکبرکاکاروبارسے علیحدہ ہوجانااس کاذاتی معاملہ ہے ،اگراس کی وجہ سے کاروبارکونقصان پہنچااورختم ہوگیاتواس کایہ عمل غلط تھا۔لیکن اس کی وجہ سے قرض کی رقم ختم نہیں ہوتی بلکہ قرض کامعاملہ کاروبارسے علیحدگی سے جداہے اس لیے قرض لوٹانالازم ہے,یہ استدلال کہ چونکہ اب کاروبارختم ہوگیاہے لہذا قرض لوٹانالازم نہیں ،درست نہیں ہے،کاروبارکے ختم ہونے کے باوجوداکبرکی رقم بطورقرض امجدکے ذمہ رہے گی۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143701200033

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں